أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا ہی نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد ایک نسل تھے، تو کیا تو ہمیں اس کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے جو باطل والوں نے کیا ؟
اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَا اَشْرَكَ....: یا یہ عذر پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کی راہ پر چلتے رہے، ہمارا کیا قصور ہے، مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہیں ہو گا۔ ’’الْمُبْطِلُوْنَ ‘‘ سے مراد آبا و اجداد ہیں، یعنی یہ کہنا ہے کہ اصل مجرم وہی ہیں ہم نہیں، اس قسم کے عذر کا وہاں کوئی موقع نہیں ہو گا، کیونکہ ابتداءً ہر شخص کی فطرت میں اپنے رب کی پہچان اور اس کی توحید رکھ دی گئی ہے، پھر اس کی یاد دہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائی گئی ہیں اور کائنات میں اس کے دلائل رکھ دیے گئے ہیں اور ان کے فہم کے لیے عقل بھی عنایت کی گئی ہے۔