فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر ان کے بعد ان کی جگہ نالائق جانشین آئے، جو کتاب کے وارث بنے، وہ اس حقیر دنیا کا سامان لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا اور اگر ان کے پاس اس جیسا اور سامان آجائے تو اسے بھی لے لیں گے، کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے اور آخری گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟
1۔ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ....: قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ’’اَلْخَلْفُ ‘‘ لام کے سکون کے ساتھ، بمعنی اولاد، واحد جمع یکساں ہیں اور ’’اَلْخَلَفُ‘‘ لام کے فتح کے ساتھ پہلوں کی جگہ آنے والا، اولاد ہو یا اجنبی۔ ابن الاعرابی نے فرمایا، لام کے فتح کے ساتھ نیک جانشین اور لام کے سکون کے ساتھ نالائق جانشین اور دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کر لیے جاتے ہیں۔ (طنطاوی) ’’عَرَضٌ ‘‘ دنیا کا سامان، کیونکہ وہ عارضی ہے۔ ’’هٰذَا الْاَدْنٰى ‘‘ میں ’’هٰذَا ‘‘ (اس) کے لفظ سے حقارت مراد ہے اور ’’الْاَدْنٰى ‘‘ کے لفظ سے بھی دنیا کی دنایت اور حقارت مراد ہے۔ (کشاف) پھر ان کے جانشین ایسے نالائق ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بنے، یعنی انھوں نے اسے پڑھا، اس کا علم حاصل کیا اور اس میں مذکور حلال و حرام اور امر و نہی سے پوری طرح آگاہ ہوئے، مگر انھوں نے اس کا اثر قبول کرنے کے بجائے اس کے احکام کی مخالفت کی اور اس کے حرام کو حلال کر لیا اور شدید حرص کی وجہ سے اس حقیر دنیا کے مال کے حصول کی کوشش میں لگ گئے، حلال طریقے سے ملے یا حرام سے، سود ہو یا رشوت یا غیر کا حق۔ اس کے باوجود یہ کہتے رہے کہ ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا۔ ’’سَيُغْفَرُ لَنَا ‘‘ میں سین تاکید کے لیے ہے۔ (آلوسی) کیونکہ ہم اللہ کے بیٹے، اس کے محبوب اور اس کے انبیاء کی نسل سے ہیں، فرمایا : ﴿ وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ ﴾ [ المائدۃ : ۱۸] ’’اور یہود و نصاریٰ نے کہا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔‘‘ 2۔ وَ اِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ: یعنی گناہ کرنے اور حرام کھانے کے بعد نہ وہ شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں توبہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ گناہوں پر اور حرام خوری پر ان کی جرأت بڑھتی جاتی ہے، حالانکہ بخشش کے لیے تو توبہ کی ضرورت ہے، جس کا لازمی جزو گزشتہ پر ندامت اور آئندہ کے لیے وہ کام نہ کرنے کا خالص اور پختہ عزم ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ پہلی دفعہ حرام کھانے کے بعد اسی طرح کا حرام دوبارہ مل جائے تو اسے بھی نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جوں ہی انھیں دوبارہ رشوت کا موقع ملتا ہے بلا جھجک اسے قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ان کے علماء کا حال ہے کہ لوگوں کو غلط مسئلے بتا کر حرام کھانے کے باوجود دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری بخشش ہو جائے گی، حالانکہ وہ غلط کام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، جو بخشش کی شرط اول ہے۔ 3۔ اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ....: یہ عہد تفصیل کے ساتھ تورات کے علاوہ آل عمران کی آیت (۱۸۷) میں مذکور ہے۔ 4۔ وَ دَرَسُوْا مَا فِيْهِ: اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے، یعنی خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں کہیں نہیں لکھا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے جاؤ میں تمھیں بخش دوں گا، مگر ان کی جرأت اور بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ گناہ بھی کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ عزوجل کی طرف وہ باتیں بھی منسوب کیے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔ 5۔ وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ: یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر حرام کھانے سے بچنے والوں کے لیے آخرت میں جو نعمتیں تیار ہیں وہ اس حقیر دنیا کے عارضی سازوسامان سے کہیں بہتر ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے حرام کھانے والو! کیا تم یہ نہیں سمجھتے؟