وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۚ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے انھیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کردیا، جو کئی گروہ تھے اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی، جب اس کی قوم نے اس سے پانی مانگا کہ اپنی لاٹھی اس پتھر پر مار تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، بلاشبہ سب لوگوں نے اپنی پانی پینے کی جگہ معلوم کرلی اور ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر من اور سلویٰ اتارا، کھاؤ ان پاک چیزوں میں سے جو ہم نے تمھیں عطا کیں اور انھوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا اور لیکن وہ اپنے آپ ہی پر ظلم کرتے تھے۔
1۔ وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا: ’’اَسْبَاطًا ‘‘ یہ ’’سِبْطٌ‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی اولاد کی اولاد ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبائل وجود میں آئے۔ اپنے الگ الگ اوصاف کی وجہ سے ہر قبیلے نے اپنا الگ وجود برقرار رکھا، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے پر ایک نقیب مقرر فرمایا : ﴿ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ﴾ [ المائدۃ : ۱۲ ] ’’اور ہم نے ان میں سے بارہ سردارمقرر کیے۔‘‘ ’’ اُمَمًا ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تعداد میں بہت بڑھ گئے۔ 2۔ اس آیت میں ’’ فَانْۢبَجَسَتْ ‘‘اور سورۂ بقرہ میں ’’ فَانْفَجَرَتْ ‘‘ہے۔ راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اِنْبَجَسَ‘‘ اکثر اس کے متعلق کہا جاتا ہے جو تنگ چیز سے نکلے اور ’’اِنْفَجَرَ‘‘ اس معنی میں بھی آتا ہے اور اس کے متعلق بھی جو کھلی چیز سے نکلے۔ (مفردات) ان آیات کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۵۸ تا ۶۰)۔