قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔
1۔ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں یہاں تک چلے گئے کہ انھوں نے جبریل علیہ السلام کو بھی اپنا دشمن قرار دے دیا، کیونکہ وہی آپ پر وحی لے کر آئے تھے۔ جب کہ ان کے خیال میں انھیں بنی اسرائیل کے کسی شخص پر وحی لے کر آنا چاہیے تھا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک بہانا بنایا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’اے ابا القاسم ! ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں ، اگر آپ نے ان کے جواب دے دیے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ واقعی نبی ہیں اور آپ کے پیروکار بن جائیں گے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آپ نے ان سے عہد لیا جیسا کہ اسرائیل علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہاں تک کہا کہ اللہ اس پر جو ہم کہہ رہے ہیں وکیل ہے۔ (سوالات کے صحیح صحیح جوابات پانے کے بعد) یہود کہنے لگے : ’’اچھا یہ بتائیے کہ فرشتوں میں سے آپ کے پاس آنے والا کون ہے ؟ کیونکہ ہر نبی کے پاس کوئی نہ کوئی فرشتہ خبر لے کر آتا ہے۔ یہی آخری بات ہے، اگر آپ بتا دیں گے تو ہم آپ کے پیروکار بن جائیں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’وہ جبریل ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’وہ تو لڑائی اور جنگ لے کر اترتا ہے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ اگر تم میکائیل بتاتے تو ہم ایمان لے آتے، کیونکہ وہ نباتات، بارش اور رحمت لے کر آتا ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ .... ﴾ [ تفسیر ابن ابی حاتم :1؍252، ح : ۹۵۳، بسند حسن ] ۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے آپ سے تین سوال پوچھے، آپ نے فرمایا : ’’مجھے ابھی ابھی جبریل علیہ السلام نے ان کے جواب بتائے ہیں ۔‘‘ تو وہ کہنے لگے : ’’وہ تو فرشتوں میں سے یہود کا دشمن ہے۔‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ [ بخاری، التفسیر، باب من کان عدوا لجبریل : ۴۴۸۰ ] 2۔اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس بہانے کے کئی جواب دیے، پہلا یہ کہ جبریل علیہ السلام کا اس میں کیا قصور ہے، اس نے تو اللہ کے حکم سے اسے آپ کے دل پر نازل کیا ہے، تمھاری عداوت تو پھر اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ دوسرا یہ کہ اگر جبریل نے تمھاری کتاب کے خلاف یا گمراہی اور عذاب والی کوئی بات کی ہوتی تو بے شک تم اس سے عداوت رکھتے، مگر جب اس کی لائی ہوئی وحی تمہاری کتاب کی تصدیق کر رہی ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے تو پھر تمھیں دشمنی رکھنے کا کیا حق ہے؟ تیسرا یہ کہ تمھارا کہنا کہ میکائیل سے تمھاری دوستی ہے، یہ کیسے درست ہو سکتا ہے، جب کہ تم جبریل سے دشمنی رکھتے ہو۔ دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے۔ لہٰذا تمھاری دشمنی صرف جبریل سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے، اس کے فرشتوں سے، اس کے رسولوں سے اور جبرئیل و میکائیل سبھی سے ہے، کیونکہ یہ سب جبریل کے دوست ہیں اور سن لو کہ جو ان سب کا دشمن ہے تو ایسے کافروں کا اللہ بھی دشمن ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ مَنْ عَادَی لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ )) [ بخاری، الرقاق، باب التواضع : ۶۵۰۲ ] ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی تو میں اس کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتا ہوں ۔‘‘ 3۔ فرقہ غرابیہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جبریل علیہ السلام علی رضی اللہ عنہ پر وحی لے کر آئے تھے، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ کی شکل آپس میں ملتی جلتی تھی، جبریل نے علی رضی اللہ عنہ کے بجائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کر دی۔ (تحفہ اثنا عشریہ) جبریل سے عداوت اور ان کی گستاخی میں یہ فرقہ بھی یہود سے ملتا جلتا ہے۔