فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ
تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا تو انھوں نے اپنے گھر میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔
1۔ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ....: سورۂ ہود (۶۵، ۶۶) میں ہے کہ صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا ہے تو انھیں تین دن کی مہلت دی، جب یہ مہلت پوری ہو گئی تو ان پر عذاب نازل ہوا اور اﷲ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام اور آپ کے اہل ایمان ساتھیوں کو بچا لیا، ان کے سوا ساری قوم ہلاک ہو گئی۔ تفاسیر و احادیث میں ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص ابو رغال ان دنوں حرم میں مقیم تھا، وہ عذاب سے محفوظ رہا، لیکن جب وہ حرم چھوڑ کر طائف کی طرف روانہ ہوا تو وہ بھی ہلاک ہو گیا اور راستے میں دفن کر دیا گیا۔ امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ذکر فرمایا کہ راستے سے گزرنے والے اس کی قبر پر سنگ باری کرتے تھے۔ [ ابن حبان : ۴۶۳ ] جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ نے آسمان کے نیچے ان سب کو ہلاک کر دیا، صرف ایک شخص بچا جو حرم میں تھا۔‘‘ پوچھا گیا : ’’وہ کون تھا؟‘‘ تو آپ نے فرمایا : ’’وہ ابو رغال تھا، لیکن جیسے ہی وہ حرم سے نکلا عذاب نے اسے بھی پکڑ لیا۔‘‘ [ مستدرک حاکم :2؍320، ح : ۳۲۴۸۔ أحمد :3؍296، ح : ۱۴۱۶۰ ] شعیب ارنؤوط اور ان کے ساتھیوں نے اس حدیث کو قوی کہا ہے۔ یہاں ’’الرَّجْفَةُ ‘‘ (زلزلے) کا ذکر ہے، سورۂ ہود (۶۷) میں ’’الصَّيْحَةُ ‘‘ (چیخ) کا ذکر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم پر دو طرح کا عذاب آیا، اوپر سے صیحہ (چیخ) اور نیچے سے زلزلہ، یا وہ خوف ناک آواز یعنی چیخ زلزلے ہی کی تھی، جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ زلزلے کے ساتھ خوف ناک آواز بھی ہوتی ہے۔ 2۔ ’’جٰثِمِيْنَ ‘‘یہ’’جُثُوْمٌ ‘‘ سے اسم فاعل ہے، یہ انسان اور پرندوں کے لیے انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں اونٹوں کے لیے ’’بُرُوْكٌ ‘‘ ہوتا ہے، یعنی سینے کے بل گرنے والے یا اپنی جگہ سے نہ ہل سکنے والے۔ یعنی وہ اپنے گھٹنوں پر منہ کے بل گرے ہوئے تھے، ان میں کوئی حرکت باقی نہ رہی۔ (طنطاوی)