أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور کیا تم نے عجیب سمجھا کہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک آدمی پر ایک نصیحت آئی، تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور تاکہ تم بچ جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
1۔ اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ....: تمام کافر اقوام کا اعتراض یہی تھا کہ ہمیں میں سے ایک شخص یعنی کوئی انسان رسول کیسے ہو سکتا ہے ؟ جیسا کہ آج کل کے کئی کلمہ گو کہتے ہیں کہ جو نبی ہو وہ انسان کیسے ہو سکتا ہے؟ دونوں کی اصل مشکل ایک ہی ہے۔ نوح علیہ السلام کا جواب یہ تھا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تم میں سے ایک آدمی کے ذریعے سے تمھاری طرف نصیحت بھیجی، تاکہ وہ نمونہ بنے، تمھیں خبردار کرے اور تم اﷲ سے ڈرو اور تم پر رحم ہو جائے۔ فرشتے یا کسی اور مخلوق کو بھیجنے سے یہ مقصد کبھی حاصل نہ ہوتا۔ 2۔ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ: اشارہ فرمایا کہ انبیاء کی دعوت قبول کر لینے سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ آخرت میں رحمت کا سبب بنے گا۔ (رازی)