سورة الاعراف - آیت 46

وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور (اس کی) بلندیوں پر کچھ مرد ہوں گے، جو سب کو ان کی نشانی سے پہچانیں گے اور وہ جنت والوں کو آواز دیں گے کہ تم پر سلام ہے۔ وہ اس میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور وہ طمع رکھتے ہوں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ وَ بَيْنَهُمَا حِجَابٌ: جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہو گی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ﴿فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ﴾ [ الحدید : ۱۳ ] یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بنا دی جائے گی، جس کے اندر کی طرف اﷲ کی رحمت ہو گی اور باہر کی طرف عذاب۔ شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وآں مسمی باعراف است۔‘‘ یعنی اس دیوار کو ’’اعراف‘‘ کہا جاتا ہے۔ (فتح الرحمن) وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ : ’’الْاَعْرَافِ ‘‘ یہ ’’عُرْفٌ‘‘ کی جمع ہے اور لغت میں ’’عَرَفَ يَعْرِفُ مَعْرِفَةً‘‘ پہچاننے کو اور ’’عُرْفٌ‘‘ بلند جگہ کو کہتے ہیں، کیونکہ بلند چیز ممتاز ہونے کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاتی ہے، اسی سے مرغ کی کلغی اور گھوڑے کی گردن کے بلند حصے کے بالوں کو ’’ عُرْفٌ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ بلندی کی وجہ سے وہ پہچان میں ممتاز ہوتے ہیں، لہٰذا ’’الْاَعْرَافِ ‘‘ سے مراد جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے، اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں۔ يَعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِيْمٰىهُمْ: ’’سِيْمَا ‘‘ کا معنی نشانی ہے، مثلاً جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے اور جہنمیوں کے کالے سیاہ، یا امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔ ’’الْاَعْرَافِ ‘‘ میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ قرطبی نے دس قول ذکر کیے ہیں، ان میں سب سے مشہور قول جسے جمہور مفسرین نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے، یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، اس لیے وہ بیچ میں دیوار پر ہوں گے۔ اس کا ایک قرینہ یہ جملہ بھی ہے : ﴿لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ يَطْمَعُوْنَ ﴾ ’’وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کی طمع رکھتے ہوں گے۔‘‘ وَ هُمْ يَطْمَعُوْنَ: یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہوں گے، اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انھیں آئندہ جنت نصیب ہو گی۔ دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پکاریں گے جن کا جنتی ہونا ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہو جائے گا، حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہونے کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ (ابن کثیر) 5۔ ابن کثیر میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحاب الاعراف کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ وہ لوگ ہیں جو نافرمانی کرتے ہوئے ماں باپ کی اجازت کے بغیر چلے گئے اور اﷲ کی راہ میں قتل ہو گئے، اب انھیں جنت میں داخلے سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور آگ میں داخل ہونے سے انھیں اﷲ کی راہ میں قتل ہونے نے روک دیا۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا کہ مرفوع روایات کی صحت اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور ابن کثیر کی تخریج ’’ ہدایۃ المستنیر‘‘ میں ان تمام روایات کا غیر معتبر ہونا تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔