وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور جب وہ کوئی بے حیائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اس پر پایا اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ کہہ دے بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔
(17) مشر کین عرب میں شیطانی فتنہ کا ایک نمونہ یہ تھا کہ قریش کے علاوہ تمام مشرکین (مرد عورت) بیت اللہ کا طواف ننگا کیا کرتے تھے، اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک بنا تے تھے، اور دوسرے بڑے بڑے گناہ کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے آباء اجداد کو ایساہی کرتے دیکھا ہے، اور اللہ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے، اگر اللہ کو یہ اعمال پسند نہ ہوتے تو ہمارے دلوں سے ان کی رغبت نکال دیتا، مشرکین کی یہ دونوں ہی دلیلیں صحیح نہیں تھیں، اس لیے اللہ کہ پہلی دلیل جاہلوں کی تقلید ہے، اور تقلید کبھی بھی ذریعہ علم نہیں رہی، اور دوسری دلیل اللہ پر افترا پردازی ہے، اسی لئے اللہ نے اسکی تردید کی اور فرمایا اللہ کبھی بھی گناہ اور بری بات کا حکم نہیں دیتا، وہ تو اچھے اخلاق وکردار کا حکم دیتا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں بہت بڑی ڈانٹ اور پھٹکار ہے ان لوگوں کے لیے جو راہ حق کو چھوڑ کر اپنے آباء اجداد کی تقلید کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ا ہل حق کی بجائے اہل کفر کی اتباع ہے۔ کافر ہی کہا کرتے تھے بے شک ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا تھا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چلیں گے (الزخرف :22) اور یہ بھی کہتے تھے، کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی راہ پر پایا ہے، اور اللہ نے ہمیں اسی پر چلنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعرف :28) اگر مقلد بھی اس زعم باطل میں مبتلا نہ ہوتا کہ ہمارے آباء اجداد اسی پر قائم تھے، اور اللہ نے اسی کا حکم دیا ہے، تو وہ تقلید پر مصر نہ ہوتا، اور اسی بری خصلت کی وجہ سے یہودی اپنی یہودیت پر اور نصرانی اپنی نصرانیت پر، اور بدعتی اپنی بدعت پر اڑارہتا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر دین سے غفلت اور حق سے اعراض کیا ہوسکتا ہے کہ یہ مقلد حضرات اللہ کی کتاب اور رسول اللہ (ﷺ) کی سنت ہوتے ہوئے لوگوں کے اقوال وآراء کی ابتاع کرتے ہیں۔