يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
اے آدم کی اولاد! کہیں شیطان تمھیں فتنے میں نہ ڈال دے، جس طرح اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، وہ دونوں سے ان کے لباس اتارتا تھا، تاکہ دونوں کو ان کی شرمگاہیں دکھائے، بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمھیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔ بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کے دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔
(16) اللہ تعالیٰ نے دوبارہ انسانوں کو مخاطب کیا تاکہ انہیں دوبارہ شیطان لعین کے شر سے ڈرائے، اور اس کی سازشوں میں گرفتار ہونے سے خوف دلائے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ "ابلیس اور اس کا لشکر تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم سے نہیں دیکھ رہے ہو۔ اور اس سے مقصود انسانوں کو مزید تنبیہ کرنی ہے اس لیے کہ انہیں ایسے دشمن سے پالا پڑا ہے جو دکھائی نہیں دیتا، اور ایسا دشمن بڑاہی خطرناک ہوتا ہے،، اور اس سے بچنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے، مالک بن دینار کہا کرتے تھے کہ ایسا دشمن جو تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، بڑا ہی بھاری دشمن ہے اور اس سے نمٹنا بڑا مشکل کام ہے، اس کے شر سے وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ بچالے۔ آیت کے اس حصہ میں بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ شیطان کو نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انسان اسے کبھی دیکھ سکتا ہے، اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شیطان انسان کو دیکھتا ہے اور انسان اسے نہیں دیکھ پاتا، لیکن کبھی اسے دیکھ بھی سکتا ہے، اس کے بعد اللہ نے مزید تنبیہ کے طو پر کہا کہ اللہ تعالیٰ شیطان کو کافر انسانوں پر مسلط کر دتیا ہے جو ان کو دلوں سے نور ایمان سلب کرلیتے ہیں، شر وفساد ان کی فطرت بن جاتی ہے، ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔ انہیں نیکیوں سے وحشت اور معاصی وسیئات سے انس ہوجاتا ہے، اور وہ شیطان کے گہرے دوست بن جاتے ہیں۔