وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے اپنی اولاد کو مار ڈالنا ان کے شریکوں نے خوش نما بنا دیا، تاکہ وہ انھیں ہلاک کریں اور تاکہ وہ ان پر ان کا دین خلط ملط کریں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑا نھیں اور جو وہ جھوٹ باندھتے ہیں۔
(137) یعنی جس طرح گذشتہ تقسیم میں شیا طین نے شرک کو خوبصورت بنا کر ان کے سامنے پیش کیا، اور انہوں نے اسے قبول کرلیا، اسی طرح ان شیاطین نے ایک اور بڑے مجرم کو مشرکین کی نگا ہوں میں خوبصورت اور جا ئز بناکر پیش کیا، تنگی رزق کے خوف سے اولاد کا قتل، اور ننگ وعار کے ڈر سے بیٹیوں کا در گور کرنا روا کردیا، اور مشر کین نے شیطا نوں کی اتباع کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا، اور اس طرح شیطان نے مشرکین کو شرک اور قتل اولاد کا مرتکب بنا کر انہیں ہلاکت کی طرف دھکیل دیا، اور باطل افکار ونظریات کی تر ویج کرکے انہیں اس دین حق سے بر گشتہ بنا دیا جس پر ان کے پیش رو بزرگ اسماعیل (علیہ السلام) قائم تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ ایسا نہ کرتے، یعنی انہوں نے ایسا اللہ کی مشیت کے مطابق کیا، اس لیے آپ انکی ہلاکت وبربادی پر غم نہ کریں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔