وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور انھوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں، ایک حصہ مقرر کیا، پس انھوں نے کہا یہ اللہ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
(136) مشر کین کی ایجاد کردہ بدعات، کفر وشرک، اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بتوں کی جو اہمیت ان کے دل ودماغ میں تھی، انہی باتوں کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، مشر کین اپنے زرعی پیداواروں اور جانوروں کا ایک حصہ اللہ کے لیے اور دوسرا حصہ اپنے بتوں اور معبودوں کے لیے قرار دیتے تھے، بتوں کا حصہ پر وہتوں اور سادھووں پر خرچ کرتے، اور جب وہ پورا خرچ ہوجاتا تو اللہ کا حصہ بھی بتوں کے لے خاص کردیتے، اور کہتے کہ اللہ تو مالدار ہے، تو جو حصہ بتوں کا ہوتا وہ تو اللہ کو بہر حال پہنچتا ہی نہیں تھا (یعنی صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ پر خرچ نہیں ہوتا تھا،) اور جو حصہ اللہ کا ہوتا اسے بھی بتوں پر خرچ کردیتے تھے۔ آیت کا ایک دوسرامعنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ کے حصہ کا جانور ذبح کرتے تو بتوں کا نام لیتے، اور جب بتوں کے حصہ کا جانور ذبح کرتے تو اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔