وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا، اے جنوں کی جماعت! بلاشبہ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنے اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ فرمائے گا آگ ہی تمھارا ٹھکانا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
(127) مؤمنوں کے لیے انعام واکرام کا بیان ہوجانے کے بعد اب کافر جن وانس کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اے محمد (ﷺ) ! آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیجئے کہ جس دن ہم شیطان جنوں اور ان کے پیروکار انسانوں کو جمع کریں گے جو ان کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان کی پناہ ڈھو نڈھتے تھے، اس دن ہم شیطان کو کہیں گے کہ تم نے انسانوں کو بہت گمراہ کیا تھا اور ان میں سے بہتوں کو اپنا تابع بنا لیا تھا تو آج تم سب کا انجام تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے، اس کے جواب میں اس کے ماننے والے انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے اے ہمارے رب ! دنیا میں ہم سب نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا یا تھا انسان جنوں کے ذریعے برائیوں اور مصیبتوں سے پناہ مانگتا تھا، اور اس کے عوض جنوں کی تعظیم کی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا، کہ آج تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ (128) یعنی اہل جہنم ہر وقت جہنم میں رہیں گے سوائے اس وقت جب اللہ تعالیٰ انہیں اس میں رکھنا نہیں چاہے گا، بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ سوائے ان بعض اوقات کے جب اللہ انہیں آگ کے علاوہ کوئی عذاب دینا چاہے گا، مثال کے طور پر جب زمہر یر یعنی، شدید ترین ٹھنڈک کا عذاب دینا چاہے گا۔ العیاذباللہ۔ اور بعض کا خیال ہے کہ اس سے مقصود محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار ہے کہ اگر اللہ چاہے تو کافر کو عذاب نہ دے اس کی مرضی میں کون داخل دے سکتا ہے۔