لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔
(99) اس آیت کریمہ کا ایک معنی علماء تفسیر نے بیان کیا ہے کہ گذشتہ آیت کے آخری حصہ میں جو بات بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی نگرانی کررہا ہے، اسی معنی کو بطور تاکید بیان کیا گیا ہے، کہ وہ تمام چیزوں کو دیکھ رہا ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے، اور مقصود بندوں کو خوف دلا نا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اگرچہ ظاہری نگا ہیں نہیں دیکھ رہی ہیں، لیکن وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، اس لیے اس کی گرفت سے بچ کررہنا چاہیئے، اور دوسرامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل دنیا کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دنیاوی وجود رکھنے والے شخص کو اس کا بیٹا قرار دیا جائے ؟! آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا، حدیث سے بھی یہی ثابت ہے، بخاری ومسلم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا تھا، تو وہ جھوٹا ہے، اس کے بعد انہوں نے یہی آیت پڑھی، لیکن یہ بات رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ مؤمنین اللہ تعالیٰ کو میدان محشر اور جنت میں دیکھیں گے، بخاری ومسلم نے جریر بن عبد اللہ بجلی (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم (ﷺ) کے پاس بیٹھے تھے، کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھوں گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔