وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔
(62) ابتدائے اسلام میں مشرکین مکہ صحابہ کرام کو قرآن پڑھتے دیکھتے تو مذاق اڑاتے، اور باتیں بناتے، انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو منع کیا کہ کفار جب قرآن کا مذاق اڑارہے ہوں تو ایسی مجلسوں سے اٹھ جائیں، یہاں تک کہ وہ لوگ کوئی اور بات کرنے لگیں۔ اور جب نبی کریم (ﷺ) ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو وہاں کے بھی کفار اور منافقین کا ایسا ہی رویہ تھا کہ وہ لوگ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے، تو اللہ تعالی نے ایسی مجلسوں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ، جیسا کہ سورۃ نساء آیت (140) میں آیا ہے،اور اللہ قرآن کریم میں تمہارے لیے بتا چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جارہا ہے، اور اس کا مذاق اڑیا جارہا ہے، اور ان کے ساتھ نہ بیٹھو، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، ور نہ تم انہی کے جیسے ہوجاؤ گے، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ حکم عام ہے، اور امت مسلمہ کے ہر فر دکا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اسلام کا یا قرآن وسنت وغیرہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، یا بد عت و خرافات کی طرف دعوت دی جا رہے ہو اس مجلس کا با ئیکاٹ کرے، ورنہ اس پر بھی حکم لگے گا جس کا بیان ابھی سورۃ نساء کے آخر میں گذرا کہ تم بھی ان کے مانند ہوجاؤ گے۔