وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر، تمھارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(53) بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کریمہ میں انہی مؤمنین کا ذکر ہے جنہیں بھگا دینے کی بات شر فائے قریش نے کی تھی، تو اللہ نے انہیں یہ مقام عطا فرمایا کہ نبی (ﷺ) کو حکم دیا کہ انہیں سلام کرنے میں پہل کریں یا انہیں اللہ کی طرف سے سلام پہنچا دیں، اور انہیں وسعت رحمت الہی کی بشارت دے دیں، امام احمد اور شیخین نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ": جب اللہ تعالی نے مخلوقات کے بارے میں فیصلہ کیا تو اپنی کتاب میں لکھ دیا (جو اس کے عرش پر موجود ہے) کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے "