بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
1۔ اس سورت کا نام البقرۃ اس مناسبت سے ہے کہ اس کی آیت (67) اور اس کے بعد والی آیتوں میں بقرہ یعنی گائے کا ذکر آیا ہے، قرآن کریم کی تقریبا تمام ہی سورتوں کے نام کے لیے ان سورتوں میں مذکور کسی نام، کلمہ یا ابتدائے سورت میں مذکور حروف مقطعات کا استعمال کیا گیا ہے۔ 2۔ یہ سورت بلا اختلاف مدنی ہے، یعنی پوری سورت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مدینہ منورہ میں آنے کے بعد اتری ہے۔ اس لیے کہ اکثر و بیشتر مضامین انہی حالات سے مطابقت رکھتے ہیں جو مسلمانوں کو مدنی زندگی میں پیش آئے، جن کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ 3۔ اس سورت کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی چند چیدہ احادیث کا ذکر یہاں کردیا جائے۔ الف۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبر نہ بناؤ جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا (مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی، نسائی) ب۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے موقوفا اور مرفوعاً روایت ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے، جس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت سنتا ہے (مستدرک حاکم، نسائی فی الیوم واللیلہ) ج۔ ابو امامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کہتے سنا : قرآن پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ دونوں روشنی پھیلانے والی سورتیں (سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران) پڑھا کرو، دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل ہوں، یا چڑیوں کے دو جھنڈ ہوں، صف باندھے ہوئے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی۔ سورۃ البقرہ پڑھو، اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت ہے۔ اور اس کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے، اور جادوگر لوگ اس کے پڑھنے والے پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔