وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اور جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا تو پاک ہے، میرے لیے بنتا ہی نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر میں نے یہ بات کہی تھی تو یقیناً تو نے اسے جان لیا، تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے، یقیناً تو ہی سب چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔
(141) یہاں بھی خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہے، اور یہ خطاب قیامت کے دن ان نصاری کے سامنے ہوگا جنہوں نے عیسیٰ اور ان کی ماں مریم کو اللہ کے بجائے معبود بنا لیا تھا، اور اس سے مقصود ان کی تو بیخ وملامت ہوگی، اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ دیگر قوموں کا جرم اس حدتک محدود تھا کہ انہوں نے انبیاء پر طعن وتشنیع کیا، لیکن ملحدین نصاری نے تو اللہ کے جلال اور اس کی کبریائی پر کلام کیا اور اسے ایسی صفات کے ساتھ متصف کیا جو کسی طرح اس کے لائق نہ تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور ان کی ماں کو اس کی بیوی ٹھہرایا، اسی لئے روز قیامت تمام انبیاء ورسل کے سامنے اللہ تعالی عیسی علیہ السلام پر اپنے ایک ایک انعام کا ذکر کر کے انکی عبودیت کا احساس دلائے گا۔اور تمام حاضرین محشر کے سامنے سوال کرے گا تاکہ وہ خود اپنی زبان سے اپنی عبودیت اور اس بات کا اعلان کریں کہ انہوں نے اپنی امت کو اللہ کی بندگی کا حکم دیا تھا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والوں کی تکذیب ہو اور ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے۔ اور اللہ نے یہ اسلوب بیان اس لیے اختیار کیا ہے تاکہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانے کے نصاری کو تنبیہ کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ان کا عقیدہ کتنا فاسد اور ان کا مذہب کس قدر بے بنیاد ہے (142) عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے قول یا عدم قول کے علم کی نسبت اللہ کی طرف کردی، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ انہوں نے یہ بات نہیں کی تھی اس طرح ثابت ہوگیا کہ یہ عیسیٰ علیہ اسلام کا قول نہی ہے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گذشتہ قول کی علت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ! میرے دل میں جو کچھ چھپا ہوا ہے تو اسے جانتا ہے، اس لیے اگر میں نے کوئی بات ایسی کہی ہوگی تو تجھے یقینا اور بدرجہ اولی اس کی خبر ہوگی۔ اور تیرے علم کے خزانے میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اسے میں نہیں جانتا، توہی غیب کی تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالی سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ میں نے ان سے وہی بات کہی تھی جس کی تبلیغ کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔ کہ اے لوگو ! تم سب اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے۔ آیت کے اس حصہ میں عیسیٰ علیہ السلام اور انکی ماں کی الوہیت کی نفی، اور عیسی علیہ السلام کی زبانی اس بات کا اقرارہے کہ انہوں نے لوگوں کو اپنی اور اپنی ماں کی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور اس بات کا بھی اعتراف واعلان ہے کہ غیب کی باتیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔اس میں انبیاء اور غیر انبیاء سبھی برابر ہیں۔انبیاء کو بھی غیب کی وہی باتیں معلوم ہوتی تھیں جو بذریعہ وحی انہیں بتائی جاتی تھیں۔