لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
وہ لوگ جنھوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا، ان پر داؤد اور مسیح ابن مریم کی زبان پر لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔
105۔ آیات 78، 79 میں خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ قدیم سے بنی اسرائیل کے کافروں پر داود اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی لعنت بھیج دی ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کر گئے، انبیاء کو قتل کیا اور سیئات و معاصی کو اپنے لیے حلال سمجھا اور ایک بڑا گناہ یہ بھی کیا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو ارتکاب معاصی سے روکنا چھوڑدیا، ان کے اس فعل بد پر مزید نکیر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ان کے کرتوت بڑے ہی برے تھے۔ ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت بھیجنی جائز ہے اور یہ کہ نہی عن المنکر، یعنی برے اعمال سے لوگوں کو روکنا واجب ہے، اسی لیے حاکم نے کہا ہے کہ نہی عن المنکر نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) اسلام کا اہم ترین قاعدہ اور عظیم ترین شرعی فریضہ ہے۔ اسی لیے اسے چھوڑ دینے والا گناہ کرنے والوں کا شریک، اور اللہ کے غضب و انتقام کا مستحق ہوتا ہے، جیسا کہ ان یہودیوں کے ساتھ ہوا جنہوں نے ہفتہ کے دن کے بارے میں فرمانِ الٰہی کا پاس نہیں رکھا، تو اللہ نے ان لوگوں کی بھی صورت مسخ کردی، جو اس عمل میں شریک نہیں تھے، اس لیے کہ انہوں نے ان پر نکیر نہیں کی، چنانچہ سبھی کی شکلیں بندروں اور سوروں جیسی ہوگئیں۔ امام احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، بنی اسرائیل نے جب گناہوں کا ارتکاب کیا تو ان کے علماء نے منع کیا، لیکن وہ نہ مانے اور وہ علماء ان کی اس حرکت کے باوجود ان کی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے، ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں اختلاف پیدا کردیا، اور داود اور عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنت بھیج دی، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کر گئے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے بیان میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بہت ساری حدیثیں ہیں۔ یہاں میں صرف ایک حدیث کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔ امام احمد اور ترمذی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگ بھلائی کا حکم دو گے، اور برائی سے روکو گے، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنی جانب سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم لوگ اللہ سے دعا کروگے، تو وہ قبول نہیں کرے گا۔