وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، انھوں نے کہا کیا تو ہمیں مذاق بناتا ہے؟ کہا میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں کہ میں جاہلوں سے ہوجاؤں۔
117: بنی اسرائیل کا ایک آدمی قتل کردیا گیا، مقتول کے ورثہ نے قصاص کا مطالبہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو، اور اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مردہ کے جسم سے لگاؤ، وہ زندہ ہوجائے گا، اور قاتل کی خبر دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، لیکن گائے مل جانے اور اسے ذبح کرنے سے قبل انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کس کس طرح جھٹلایا اور کہا کہ کیا تو ہمارا مذاق اڑا رہا ہے، اور پھر گائے کی صفات کی تفصیل میں اپنی کن کن کج فہمیوں کا ثبوت دیا، یہ ساری تفصیلات یہاں بیان کی گئی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا احسان یاد دلایا ہے کہ ایک آدمی کے قتل کے بعد تمہارے درمیان اختلاف واقع ہوا تو خرق عادت کے طور پر مذبوح گائے کا ایک ٹکڑا اس مردہ کے جسم سے لگانے سے بول پڑا، اور قاتل کا نام بتا کر پھر مر گیا۔ 118: دوسروں کا مذاق اڑانا نادانوں کی صفت ہے، اسی لیے اللہ کے نبی موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے ذریعہ ایسی صفت سے پناہ مانگی۔