وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان پر لعنت کی گئی، اس کی وجہ سے جو انھوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور یقیناً جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی وہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
87۔ طبرانی اور ابن اسحاق نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ شاس بن قیس نامی یہودی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کہا، تمہارا رب تو بخیل ہے، خرچ نہیں کرتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابو الشیخ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت یہود بنی قینقاع کے سردار فنکاص کے بارے میں نازل ہوئی، جس نے کہا تھا کہ اللہ تو فقیر ہے، اور ہم لوگ مالدار ہیں، جس پر ابوبکر صدیق (رض) نے اسے مارا تھا، اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت 181 میں گذر چکی ہے اس کا پھر سے مطالعہ کرلیجئے۔ ” اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں“ یعنی وہ بخیل ہے۔ اللہ نے ان کی اس خباثت کا یہ جواب دیا کہ اس بدترین صفت کے مالک اب ہمیشہ کے لیے وہی لوگ رہیں گے، اور ان پر ان کے اس مذموم قول کی وجہ سے لعنت بھیج دی گئی، چنانچہ ان کا حال ایسا ہی ہے کہ بخل، حسد، بزدلی اور ذلت ان کی قسمت بن گئی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تو بڑا ہی فضل و کرم اور بڑا ہی جو دو سخا والا ہے، اس کے پاس تو ہر چیز کا خزانہ ہے مخلوق کے پاس جو بھی نعمت پائی جاتی ہے، اسی کی طرف سے ہے، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی نے ہر چیز کو ہمارے لیے پیدا کیا ہے ، بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں، لیکن مخلوق کے مشابہ نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا ، (الشوری :11) اس جیسی کوئی چیز نہیں (نہ ذات میں اور نہ صفات میں) اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کا مذہب ہے۔ اللہ کے ہاتھوں کی تاویل قدرت، یا نعمت یا احسان سے کرنا جیسا کہ بعض گمراہ فرقے کرتے ہیں درست نہیں۔ نیز یہ آیت ان کا دندان شکن جواب ہے۔ یہاں پر ذکر کردہ تینوں تاویلات میں کوئی تاویل قطعی طور پر مستقیم نہیں ہوسکتی۔ 88۔ یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ نے آپ کو قرآن اور اسلام کی جو نعمت دی ہے وہ آپ کے دشمنوں (یہود اور غیر یہود) کے حق میں مصیبت بن گئی ہے۔ مؤمنین تو قرآن کریم سے ایمان، عمل صالح اور علم نافع حاصل کرتے ہیں، اور کفار جو مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں کفر و طغیان میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ 89۔ اسی وجہ سے وہ لوگ کبھی بھی کسی بات پر متفق نہیں ہوتے۔ شہرستانی نے لکھا ہے کہ اہل کتاب بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یا تو مراد یہ ہے کہ ہم نے یہود و نصاری کے درمیان عداوت ڈال دی یا خاص طور پر یہودی فرقوں کے درمیان۔ 90۔ یعنی جب بھی یہودیوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکانی چاہی اور کوئی شر پھیلانا چاہا تو اللہ نے خود ان کے درمیان اختلاف پیدا کردیا اور ان کے شر کو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے دور کردیا، یا مراد یہ ہے کہ انہوں نے جب بھی کسی کے خلاف جنگ کی تو مغلوب و مقہور ہوئے، اور اللہ کی نصرت انہیں کبھی بھی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں، مسلم سوسائٹی میں فتنے پھیلانا، اور لوگوں کو دعوت اسلام سے روکنا ان کا وطیرہ رہا، حقیقت یہ ہے کہ فساد پھیلانا ان کی سرشت بن گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔