فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرے تو یقیناً اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
52۔ آیت میں ظلم سے مراد چوری ہے، اور مفہوم یہ ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور اسے آخرت میں اس چوری کے بدلے میں سزا نہیں دے گا، لیکن دنیا میں چوری کی حد اس سے ساقط نہیں ہوگی، جیسا کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس ایسے لوگ تائب ہو کر آتے تھے جن پر حد واجب ہوتی تھی، تو آپ ان پر حد جاری کرتے تھے۔ دارقطنی، حاکم اور عبدالرزاق وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک چور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس لایا گیا تو آپ کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹا گیا، اس کے بعد آپ نے اس سے کہا کہ توبہ کرو، تو اس نے کہا کہ میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ نے تیری توبہ قبول کرلی، معلوم ہوا کہ توبہ کرلینے سے حد ساقط نہیں ہوتی، لیکن قیامت کے دن اس کی وجہ سے اسے سزا نہیں دی جائے گی البتہ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر چور کا معاملہ حاکم تک پہنچنے سے پہلے اسے معاف کردیا جاتا ہے تو اس سے حد ساقط ہوجائے گی۔