سورة المآئدہ - آیت 33

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

47۔ آیات 33، 34 آیات محاربہ کہلاتی ہیں، محاربہ کا لغوی معنی مخالفت ہے، اور اصطلاح شرع میں اس کا اطلاق کفر، ڈاکہ زنی، لوٹ مار اور دہشت گردی پر ہوتا ہے۔ ابو داود اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیات مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، ایسا کرنے والا اگر گرفتار کیے جانے سے پہلے توبہ کرلے گا تو بھی اس پر حد قائم کی جائے گی۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ عرینہ یا عکل کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس مدینہ آ کر اسلام قبول کرلیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق پڑی، اس لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان سے کہا کہ وہ صدقہ کے اونٹوں کی جگہ چلے جائیں، اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں، انہوں نے وہاں جا کر ایسا ہی کیا اور جب صحت مند ہوگئے تو کچھ دنوں کے بعد اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہنکا کرلے گئے۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے انہیں پکڑنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، جب وہ پکڑ کر لائے گئے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے، اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں، اور ان کے زخموں کو بغیر داغے ہوئے چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ مرگئے، امام مسلم کی انس (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں، اسی لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان کی بھی آنکھیں پھوڑ دیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین اور غیر مشرکین سب کے بارے میں عام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عکل یا عرینہ والوں کو جو سزا دی گئی تھی وہ اس آیت کے ذریعہ منسوخ ہوگئی ہے، اور اب محاربہ کرنے والوں کو وہی سزا دی جائے گی جس کا بیان اس آیت میں آیا ہے۔ ظاہر آیت دلالت کرتی ہے کہ آیت میں مذکور جس سزا کو امام وقت جس کے لیے مناسب سمجھے گا نافذ کرے گا، آیت کا تتمہ İذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذابٌ عَظِيمٌĬ ، دلالت کرتا ہے کہ محاربین کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا ملے گی، دنیا میں حد قائم کردینے سے وہ پاک نہیں ہوجائیں گے، چاہے وہ مسلمان ہوں، حافظ سیوطی اور شعرانی وغیرہم کی یہی رائے ہے۔