يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو) اور اگر جنبی ہو تو غسل کرلو اور اگر تم بیمار ہو، یا کسی سفر پر، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو، پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔
24۔ نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے وضو کے وجوب یا استحباب کے بارے میں علماء کے کئی اقوال ہیں : کسی نے ہر نماز کے لیے وضو کو ضروری قرار دیا ہے، چاہے آدمی کا وضو باقی ہو یا ٹوٹ گیا ہو۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آیت میں ہر نماز سے قبل وضو کا حکم استحباب کے لیے ہے۔ ایک تیسری جماعت نے کہا ہے کہ اس آیت کے مطابق ہر نماز سے پہلے وضو کرنا ضروری تھا۔ لیکن فتح مکہ کے وقت یہ حکم منسوخ ہوگیا، جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ وضو صرف اس پر واجب ہے، جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو، امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دیا ہے۔ بعض علمائے کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے وضو میں نیت کو واجب قرار دیا ہے، اس لیے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے کو دھو لو۔ وضو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا ضروری ہے۔ احمد، ابوداود اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جس نے وضو کے پانی پر بسم اللہ نہیں پڑھا، اس کا وضو نہیں ہوگا (شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ارواء الغلیل میں حسن قرار دیا ہے۔ برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کا دھونا مستحب ہے، اور سو کر اٹھنے کے بعد ایسا کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے، جب تم میں سے کوئی نیند سے اٹھے، تو ہاتھ کو تین بار دھونے سے پہلے پانی میں نہ ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ اسکے ہاتھ نے کہاں رات گزاری۔ متفق علیہ وضو میں چہرہ دھونا واجب ہے، اور وہ سر کا بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخر تک اور کان سے کان تک کی جگہ ہے۔ اگر داڑھی گھنی ہو تو اس میں انگلی ڈال کر خلال کرنا مستحب ہے، امام احمد نے شقیق سے روایت کی ہے کہ عثمان (رض) نے تین بار داڑھی میں خلال کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا۔ دونوں ہاتھوں کا دھونا بھی واجب ہے، اور جمہور کے نزدیک ہاتھ میں کہنی بھی داخل ہے، امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے دایاں اور بایاں ہاتھ کہنی کے اوپر بازو تک دھویا، اور وضو سے فارغ ہونے کے بعد کہا کہ ایسے ہی میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جمہور کی رائے ہے کہ دائیں کو بائیں پر مقدم کرنا سنت ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے خلاف کرے گا تو اسے سنت کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی، لیکن وضو صحیح ہوگا۔ جمہور اہل علم کا مسلک ہے کہ زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی پر بندھی ہوئی پٹی پر مسح کرنا صحیح ہے۔ ابو داود اور دارقطنی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا اس کے لیے یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور زخم پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔ سر پر مسح کرنا واجب ہے صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں سر کے بعض حصہ پر مسح کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔ امام مسلم نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی پیشانی اور عمامہ پر مسح کیا، اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ امام شوکانی نے لکھا ہے، سنت سے یہی ثابت ہے کہ سر کے بعض حصہ پر مسح کرنا کافی ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ پورے سر کے مسح کی افضیلت میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اسے واجب کہنے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے زد المعاد میں لکھا ہے کہ کسی ایک حدیث سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صرف سر کے بعض حصہ کا مسح کیا، بلکہ اگر آپ پیشانی پر مسح کرتے تو عمامہ پر مسح کی تکمیل کرتے۔ 25۔ ابن عباس (رض) نے کو لام کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے، جمہور اہل اسلام کا مذہب یہی ہے کہ سر کے مسح کے بعد دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے۔ اور اسی قرأت کی بنا پر جمہور نے وضو میں ترتیب کو واجب قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ترتیب شرط نہیں ہے، یعنی اگر کوئی پہلے دونوں قدموں کو دھوئے پھر سر کا مسح کرے، پھر دونوں ہاتھ دھوئے، پھر چہرہ دھوئے، تو وضو صحیح ہوگا، لیکن راجح جمہور کا مسلک ہے، اور ترتیب وضو کی صحت کے لیے شرط ہے۔ صحیحین اور احادیث کی دوسری کتابوں میں جو صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سے یہی ثابت ہے کہ دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھونا وضو کی صحت کے لیے شرط ہے۔ شیعہ حضرات دونوں پاؤں کے مسح کے قائل ہیں اور ان کی دلیل میں لام پر زیر والی قرأت ہے، جو بہرحال صحیح اور ثابت شدہ احادیث کے خلاف ہے، ابن العربی کہتے ہیں کہ وضو میں دونوں پاؤں دھونے کے وجوب پر امت کا اتفاق ہوچکا ہے، میرے علم کے مطابق فقہائے اسلام میں سے صرف طبری نے اس کی مخالفت کی ہے، اور روافض شیعہ نے۔ 26۔ اگر خروج منی اور شوہر بیوی کی شرمگاہوں کے مل جانے سے جنابت لاحق ہوجائے تو غسل کرنا واجب ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا واجب ہے، ایسی صورت میں تیمم غسل کے قائم مقام ہوگا۔ 27۔ اگر آدمی جنبی یا مریض ہو یا حالت سفر میں ہو یا پاخانہ سے فراغت حاصل کرے، یا کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے اور طہارت حاصل کرنے کے لیے اسے پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے تیمم کرے، اور اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کرلے (سورہ نساء میں اس آیت کی تفسیر گذر چکی ہے)۔ نماز کے لیے طہارت یا تیمم کے حکم سے مقصود بندوں کو تکلیف اور تنگی میں ڈالنا نہیں، بلکہ اللہ اپنے بندوں کو گناہوں سے پاک کرنا، اور اپنی نعمت کو ان پر تمام کرنا چاہتا ہے، اس نے ہر حال میں ان کے لیے اپنی عبادت کے اسباب مہیا کیے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کے ذریعہ طہارت حاصل کرنے کی اجازت دی، تاکہ اللہ کے نیک بندے ان نعمتوں اور آسانیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں۔