تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔
(1)بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ الشعراء کی آیت (214) ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ Ĭ” اے میرے نبی ! آپ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرایئے“ نازل ہوئی، تو نبی کریم (ﷺ) گھر سے نکل کر صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور قریش کے خاندانوں کو آواز دی، اے بنی فہر ! اے بنی عدی ! یہاں تک کہ سب جمع ہوگئے، بعض لوگ جو خود نہیں آسکے، انہوں نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تاکہ معلوم کرے کہ ماجرا کیا ہے؟ چنانچہ ابولہب اور اہل قریش آگئے آپ (ﷺ) نے کہا : تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں خبر دں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ مجھے سچا سمجھو گے؟ لوگوں نے کہا : ہاں ہمارا تجربہ تمہارے بارے میں یہی ہے کہ تم سچ بولتے ہو۔ آپ نے کہا : تو میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں، ابولہب نے کہا : تم پورادن خسارہ ہی اٹھاتے رہو، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لئے جمع کیا تھا؟ تو یہ سورت نازل ہوئی۔ ابولہب کا نام : عبدالعزی تھا، عبدالمطلب بن ہاشم کا لڑکا اور نبی کریم (ﷺ) کا چچا تھا، آپ سے اور آپ کی دعوت سے بڑی سخت عداوت رکھتا تھا، جنگ بدر میں شریک نہیں ہوا تھا، اپنے بدلے کسی اور کو بھیج دیا تھا لیکن جب اسے قریش کی بری شکست کا حال معلوم ہا تو غم کی تاب نہ لا سکا اور کچھ ہی دنوں کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس کی بیوی ام جمیل کا نام : اروی تھا، وہ حرب بن امیہ کی بیٹی، ابو سفیان کی بہن اور معاویہ کی پھوپھی تھی رسول اللہ (ﷺ) سے زبردست دشمنی رکھتی تھی، آپ (ﷺ) کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی اور کفر و عناد اور رسول اللہ (ﷺ) سے دشمنی کرنے میں اپنے شوہر ابولہب کا ساتھ دیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اسی ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل کے بارے میں نازل فرمائی ہے، تاکہ رہتی دنیا تک ان لوگوں کی مثال قائم ہوجائے جو شیطان اور خاہش نفس کی اتباع میں اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ابولہب ہلاک و برباد ہوا، شقاوت و بدبختی نے اسے گھیر لیا ۔