وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ
اور تو اس شہر میں رہنے والا ہے۔
(2)یعنی آپ کا وہاں رہنا مکہ کے لئے باعث شرف ہے، لیکن اس حقیقت کو اہل مکہ نے نہیں سمجھا، اور آپ کو وہاں سے نکال دینے کا فیصلہ کیا۔ بعض نے ﴿وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ Ĭ کا معنی اہل مکہ کے حال پر اظہار تعجب بیان کیا ہے کہ جس شہر میں کبوتر کا شکار حلال نہیں وہاں نبی کریم (ﷺ) کا احترام نہیں کیا جا رہا ہے اور انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جا رہی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت میں آپ (ﷺ) کو فتح و کامرانی کی خوشخبری دی گئی ہے کہ عنقریب یہاں آپ بحیثیت فاتح داخل ہوں گے اور مشرکین میں سے کچھ کو قتل کریں گے اور کچھ کو قید کرلیں گے۔ اور یہ استثنائی حکم آپ (ﷺ) کے ساتھ خاص تھا مکہ مکرمہ نہ آپ سے پہلے کسی کے لئے حلال بنایا گیا اور نہ آپ کے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ امام بخاری نے کتاب المغازی میں مجاہد سے روایت کی کہ ہے، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : ” مکہ نے مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا، اور میرے لئے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لئے حلال بنایا گیا۔“ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اسی گھڑی میں ابن خطل کو قتل کیا گیا درانحالیکہ وہ کعبہ کی چادر پکڑے لٹکا ہوا تھا۔