سورة النسآء - آیت 115

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

113: اس آیت کریمہ کا تعلق بھی بنی ابیرق کے واقعہ سے ہے، اس لیے کہ طعمہ کو اس بات کا یقین تھا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اسلام دین برحق ہے، اس کے باوجود اس نے صحابہ کرام کے بجائے کافروں کی راہ اختیار کی، اور مرتد ہو کر کافروں سے جا ملا لیکن اس آیت کا حکم بھی عام ہے جیسا کہ اوپر والی آیت کے بارے میں کہا گیا، چنانچہ جو کوئی بھی حق واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے گا، اور مسلمان کی راہ یعنی دین اسلام کے علاوہ کسی دوسری راہ کو اپنائے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے اسی مخالفت رسول اور عدم اتباع اسلام کی راہ پر چھوڑ دے گا، بلکہ اس کی نگاہوں میں اس کی اس روش کو خوبصورت اور عمدہ بنا دے گا یہاں تک کہ جہنم میں جا گرے گا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت آدمی کو کفر تک پہنچا دیتی ہے، اور اس پر بھی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت بھی کبیرہ گناہ ہے، اور یہ کہ اجماع قرآن و سنت کی طرح دلیل ہے، امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی آیت سے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے، اور کہا ہے کہ چونکہ مؤمنوں کے طریقہ کی مخالفت کا انجام جہنم بتایا گیا ہے، اس لیے یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ ان کی اتباع کرنا فرض ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں دین کے تمام امور بیان کردئیے گئے ہیں، اور امت کا اجماع بذات خود حق ہے، اس لیے کہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی، انہوں نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے استدلال کیا، ہے، اور آخر میں کہا ہے کہ امام شافعی نے اسی آیت سے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے، اس کے بعد کہا ہے کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ مؤمنوں کی راہ کی اتباع نہ کرنے والا وعید کا مستحق ہے، ورنہ اس وصف کو الگ سے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں پایا جاتا جس پر علماء کا اجماع ہوگیا ہو، اور اس کے لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سنت سے دلیل موجود نہ ہو، لیکن کبھی وہ دلیل بعض لوگوں کو معلوم نہیں ہوپاتی، اور علماء کے اجماع کا علم ہوجاتا ہے تو اسی سے استدلال کرتے ہیں