إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
بے شک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے والا نہ بن۔
110۔ آیت 105 سے لے کر 109 تک کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے، مجاہد، عکرمہ، قتادہ اور سدی وغیرہم نے ذکر کیا کہ یہ آیتیں بنی ابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا، اس نے ایک آدمی کا (زرہ) چوری کرلیا۔ اور جب اس کا نام لیا جانے لگا، تورات کو چپکے سے اسے ایک یہودی کے گھر میں ڈال آیا۔ اور وہ اور اس کے بھائی کہنے لگے کہ فلاں یہودی نے زرہ چوری کیا ہے۔ اور تمام بھائی مل کر قسم کھا گئے کہ طعمہ نے چوری نہیں کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان کو سچ سمجھا، اور یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا، تو یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور طعمہ کا جھوٹ کھل کر سامنے آیا، چنانچہ اس نے اپنے ارتداد کا اعلان کردیا اور مکہ کی طرف بھاگ گیا، جہاں اس کے سر پر چوری کرتے ہوئے ایک دیوار گر گئی اور کفر کی حالت میں مرگیا، ، یعنی اللہ نے جس کا علم آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے۔ ، میں دلیل ہے کہ جب تک کسی کے سچا اور حق پر ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ اس میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایک قسم کا عتاب بھی ہے کہ آپ کو خیانت کرنے والوں کی طرف سے دفاع نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ نے آپ سے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت طلب کیجئے کہ آپ نے بے گناہ یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا تھا۔ آیت میں ان لوگوں کے خلاف سخت دھمکی ہے جو بغیر تحقیق کیے دوسروں کا ساتھ دیتے رہتے ہیں۔۔ میں خوان مبالغہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ طعمہ بہت بڑا خائن اور بہت بڑا گناہ گار ہے۔ چنانچہ حالات نے اس کی تصدیق کردی کہ وہ مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا، اور کفر پر اس کی موت ہوگئی۔