سورة البروج - آیت 4

قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

مارے گئے اس خندق والے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(4)تمام مذکورہ بالا چیزوں کی قسم ! کہ اصحاب اخدود، اللہ کی لعنت کے مستحق بن گئے جنہوں نے ایک بہت بڑی آگ سلگائی، اور ان مومنوں کو اس کے پاس لے کر آئے جنہوں نے شرک سے تائب ہو کر توحید کی دعوت قبول کرلی، اور ان سے کہا کہ یا تو تم دوبارہ کافر ہوجاؤ یا تمہیں اس آگ میں ڈال دیا جائے گا تو انہوں نے کفر کے بجائے آگ میں ڈالا جانا قبول کرلیا۔ اصحاب اخدود کے بارے میں مسلم، ترمذی اور نسائی وغیرہ نے صہیب (رض) سے اور انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانہ میں ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک کاہن تھا اس نے کہا : مجھے ایک ذہین و فطین لڑکا دیجیے جسے میں اپنے مرنے سے پہلے اپنا علم سکھا دوں، بادشاہ نے ایک لڑکا چن کر اس کے پاس بھیج دیا، وہ لڑکا اس کے پاس جانے لگا اس کے راستہ میں ایک گرجا تھا، جس میں ایک راہب (عابد و زاہد) رہتا تھا، لڑکا اس کے پاس بھی جانے لگا، کچھ دنوں کے بعد راہب نے اسے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، لڑکا اس کے پاس دیر تک رہنے لگا اور کاہن کے پاس جانے میں دیر کرنے لگا، کاہن نے اس کے گھر والوں کو خبر بھیج دی کہ وہ دیر سے آیا کرتا ہے اور میرے پاس بہت کم وقت رکتا ہے، جب لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو اس نے کہا : کاہن کو کہہ دیا کرو کہ گھر میں تھا، اور گھر والوں سے کہہ دو، میں کاہن کے پاس تھا ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک شیر نے لوگوں کی راہ روک رکھی ہے اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اسے مارا کہ اے اللہ ! اگر کاہن کی بات صحیح نہیں ہے تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں اس شیر کو قتل کر دوں اور اگر کاہن کی بات صحیح ہے توشیر اس پتھر سے نہ مرے، چنانچہ شیر مر گیا، لوگوں نے یہ دیکھ کرلڑکے کے علم و عرفان کا اعتراف کرلیا، ایک اندھا اس لڑکے کے پاس آیا، اور کہا کہ اگر تمہارے ذریعہ میری بصارت واپس آجائے گی تو میں تمہیں ایسا ایسا بدلہ دوں گا لڑکے نے کہا : مجھے تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہئے، سوائے اس کے کہ تم اس اللہ پر ایمان لے آؤ جو تمہاری بصارت لوٹا دے گا، اس نے کہا : ٹھیک ہے لڑکے نے دعا کی اور اس کی بینائی واپس آگئی تو وہ اللہ پر ایمان لے آیا، بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے راہب، سابق نابینا اور لڑکا، تینوں کو اپنے دربار میں بلایا، اور راہب اور سابق نابینا کو آرے سے دوٹکڑے کردیا اور لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے اونچے پہاڑ سے نیچے گرا دیا جائےجب لوگ اسے لے کر پہاڑ پر پہنچے تو اللہ کی قدرت سے ایک ایک کر کے سبھی نیچے گر کر ہلاک ہوگئے اور لڑکا واپس آگیا بادشاہ نے دوبارہ حکم دیا کہ اسے سمندر میں ڈبو دیا جائے لوگ اسے لے کر سمندر میں گئے، اللہ کا ایسا کرنا ہوا کہ سب ڈوب گئے اور لڑکا بچ گیا تب اس نے بادشاہ سے کہا کہ تم مجھے ایک ہی صورت میں مار سکتے ہو کہ مجھ پرتیر چلاتے وقت ” بسم اللہ رب ھذا الغلام“ کہو یعنی ” اس اللہ کے نام سے اسے مارنا چاہتا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے“ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا تو لڑکا مر گیا جب لوگوں نے دیکھا تو بیک آواز سب کہنے لگے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے بادشاہ نے جب دیکھا کہ لوگ گروہ درگروہ ایمان لا رہے ہیں تو اس نے ایک آگ جلائی اور تمام لوگوں کو اس کے پاس جمع کیا اور ہر اس شخص کو اس میں ڈالنے لگا جو اپنے نئے دین سے نہیں پھرتا تھا صہیب کہتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ﴿قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ Ĭ سے ﴿الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ Ĭ تک تلاوت کی اور کہا کہ ان آیتوں میں یہی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔