فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ
تو اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔
(25)قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ جب فرعون نے لاٹھی کو سانپ بن کر دوڑتے دیکھ لیا اور اپنی ذلت و رسوائی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی، تو اس کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ ایسی بات نہ کرتا ، اس کی یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب اس نے عصائے موسوی کو اپنے سامنے دوڑتا دیکھا تو اس پر جنونی کیفیت طاری ہوگئی اور اس کا کفر و عناد بڑھتا ہی گیا اور انجام سے بے خبر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی دعوت کے خلاف ہر ممکن تدبیر کرتا رہا، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ظلم سے تنگ آ کر بنی اسرائیل کو لے کر جب راتوں رات مصر سے روانہ ہوئے تو اس نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا اور بالاخر اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کی فوج کو سمندر میں ڈبو دیا، اس کے اسی انجام بد کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت (25)میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ نے دنیا میں یہ عذاب دیا کہ اسے اور تمام فرعونیوں کو بحر قلزم کے حوالے کردیا اور آخرت میں اسے آگ کا عذاب دے گا۔ بعض مفسرین نے ﴿نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ Ĭ کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے سامنے اپنے معبود ہونے کا دوبارہ اعلان کیا، پہلی بار اس نے ابتدائے دعوت موسیٰ میں کہا کہ میں نے ملک کا ایک ایک چپہ ڈھونڈ لیا ہے“ مجھے میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ملا اور اس کے چالیس سال کے بعد اس نے دوبارہ اپنی قوم اور اپنے لشکر کے سامنے اس کا اعلان کیا کہ میں ہی تمہارا سب سے بڑ امعبود ہوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ان دونوں طاغوتی دعوؤں کی پاداش میں اسے ہلاک کردیا۔