أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔
85۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ موت جس کے ڈر سے تم جہاد سے کترا رہے ہو، جب اس کا وقت آجائے گا تو وہ کہیں بھی تمہیں آ دبوچے گی، اس کے بعد اللہ نے منافقین کی ایک صفت بیان کی کہ جب ان کے مال میں برکت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہمیں اچھا جان کر ہی یہ سب کچھ دیا ہے، اور اگر قحط سالی اور مال و اولاد میں کمی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اے محمد ! یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے، تم ہی جب سے مدینہ میں آئے ہو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے، اور اس بات میں تو یہود بھی منافقین کے ساتھ شریک تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ آدمی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کے اصحاب یہاں آئے ہیں، ہمارے اناجوں اور پھلوں میں کمی آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو حکم دیا کہ ان کے زعم باطل کی تردید کرتے ہوئے آپ کہئے کہ اے منافقو ! نعمت یا مصیبت سب کا تعلق اللہ سے ہے، لیکن بات در اصل یہ ہے کہ تم جہالت و عناد میں مبتلا ہو تمہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔