وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ
اور اس دن سے بچو جب نہ کوئی جان کسی جان کے کچھ کام آئے گی اور نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اس سے کوئی فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
102: یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ اگر تم لوگ میرے رسول اور اس پر نازل کردہ کتاب پر ایمان نہ لائے اور اسی حال میں قیامت کے دن ہمارا سامنا ہوا تو نہ کوئی رشتہ دار اس دن کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش، اور نہ ہی عذاب سے جان بر ہونے کے لیے کوئی معاوضہ یا رشوت ہی قبول کی جائے گی، اور نہ کوئی تمہاری مدد کے لیے آگے آئے گا۔ ہر تعلق، ہر رشتہ داری اور ہر سفارش بے کار ثابت ہوگی، اس دن فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا، اور بروں کو ان کی برائی کا اور اچھوں کو ان کی اچھائی کا دس گنا بدلہ دے گا۔ فائدہ : آیت میں شفاعت کی نفی کافروں کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے İفَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ Ĭ، یعنی کافروں کو کسی کی شفاعت کام نہ دے گی،( المدثر، 48)۔ اور جہنمی کہیں گےİ فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ Ĭ، یعنی کوئی ہماری شفاعت کرنے والا نہیں۔( الشعراء، 100)۔ مؤمنوں کے لیے رسول اللہ (ﷺ) کی شفاعت ثابت ہے، یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، اور قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) مؤمنین موحدین کے لیے شفاعت کریں گے، اور اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائیں گے۔