إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا
بلاشبہ رات کو اٹھنا (نفس کو) کچلنے میں زیادہ سخت اور بات کرنے میں زیادہ درستی والا ہے۔
(6) اس آیت کریمہ میں قیام اللیل اور اس میں قرآن کریم کی پرسکون اندازمیں قرأت کا فائدہ بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) سے فرمایا کہ آپ رات کے وقت نماز پڑھئے اور اس میں قرآن کی تلاوت کیجیے اس لئے کہ رات کے وقت ماحول پرسکون ہوتا ہے، مخلوق سوئی ہوتی ہے اور ساری آوازیں خاموش ہوتی ہیں، اس وقت کان، آنکھ، دل اور زبان کے درمیان پورا توافق ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے وقت میں جب آپ نماز کے لئے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر قرآن کی تلاوت کیجیے گا تو آپ کی قرأت زیادہ حضور قلب کے ساتھ ہوگی اور آپ کے دل و دماغ پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ حافظ سیوطی نے جاحظ سے اس آیت کا مفہوم یہ نقل کیا ہے کہ ” ﴿ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ Ĭ “ سے مراد وہ معانی و مطالب ہیں جو تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت سے دل پر منکشف ہوتے ہیں، وہ مطالب و معانی زیادہ صحیح ہوتے ہیں اور ان کا اثر آدمی پر زیادہ واضح ہوتا ہے۔