يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
اے کپڑے میں لپٹنے والے!
(1) بخاری و مسلم اور ترمذی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی، اور غار حرا سے گھر واپس آتے ہوئے جبریل (علیہ السلام) کو فضاء میں دیکھا، تو آپ پر کپکپی طاری ہوگئی اور گھر پہنچتے ہی خدیجہ (رض) سے کہا ” زملونی ودثرونی“ کہ مجھے فوراً کمبل اڑھاؤ، انتہی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں از راہ لطف و محبت آپ کو ” المزمل“ اور سورۃ المدثر ” المدثر“ کا خطاب دیا۔ بعض مفسرین نے اس کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ ابتدائے وحی میں جب جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس آتےتووحی کے رعب سے آپ پر کپکپی طاری ہوجاتی اور آپ کمبل اوڑھ لیتے، اسی لئے آپ کو ” المزمل“ کا خطاب دیا گیا کچھ دنوں کے بعد یہ کیفیت ختم ہوگئی اور اللہ نے آپ کے دل کو ثبات عطا کیا۔ تیسری رائے یہ ہے کہ ” مزمل“ کا معنی ” نبوت کا بارگاں اٹھانے والا“ ہے چونکہ نبی کریم (ﷺ) پر آخری رسالت کا بارگراں ڈالا گیا تھا، اسی لیے اس بڑی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لئے آپ کو اس خطاب کے ساتھ پکارا گیا۔