وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا
اور (یہ وحی کی گئی ہے) کہ اگر وہ راستے پر سیدھے رہتے تو ہم انھیں ضرور بہت وافر پانی پلاتے۔
(16/17) یہ آیت جنوں کے کلام کا حصہ نہیں ہے، بلکہ پہلی آیت میں : ﴿أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ Ĭ پر معطوف ہے، اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ مجھ پر یہ وحی بھی نازل ہوئی ہے کہ اگر مشرکین مکہ حق و انصاف کی راہ پر چلیں گے تو ہم ان کے لئے خوب بارش برسائیں گے، جس کے نتیجہ میں ان کا مال بڑھے گا اور ان کی روزی میں کشادگی ہوگی، پھر ہم ان کا امتحان لیں گے کہ وہ ہمارا شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لئے اپنا یہ مشروط وعدہ قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت(96)میں فرمایا ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ Ĭ” اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے، اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“ اور سورۃ نوح آیات(10/11/12) میں فرمایا ہے : ﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ، يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا، وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ Ĭ ” پس میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مفغرت طلب کرو، وہ یقیناً بڑابخشنے والا ہے، وہ تمہارے لئے آسمان سے خوب بارش برسائے گا اور تمہیں مال و دولت اور اولاد سے نوازے گا۔ “ آیت کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ” اے میرے نبی ! اگر کفار مکہ اپنے کفر و شرک پر اصرار کریں گے، تم ہم ان کی رسی ڈھیل دیں گے اور ان کی روزی میں خوب وسعت دے دیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (44)میں فرمایا ہے : ﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ Ĭ ” پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے، یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو ان کو ملی تھی وہ خوب اترانے لگے تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔ “ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس رائے کی تائید آیت (16) میں اللہ تعالیٰ کے قول : ﴿لِّنَفْتِنَهُمْ فِيهِ Ĭ سے ہوتی ہے، جس کا معنی ہے ” تاکہ ہم اس کے ذریعہ ان کا امتحان لیں۔ “ آیت (17) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی قرآن کریم اور اس کی دعوت سے روگردانی کرے گا اور شرک اور دیگر برے اعمال سے نہیں بچے گا، اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں ذلت و رسوائی اور فقر و فاقہ میں مبتلا کرے گا اور آخرت میں اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا جہاں اسے شدید دیا جائے گا۔