إِلَّا الْمُصَلِّينَ
سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔
(22) اس بیماری کا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کا خالق ہے، ایک ہی علاج بتایا ہے کہ بندہ اس دنیا میں اللہ کا ہو کر رہے، اس نے جو فرائض عائد کئے ہیں انہیں پابندی سے ادا کرے، اور جن برے افعال و اخلاق سے اس نے منع کیا ہے، ان سے اجتناب کرے۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے اندر ایسی روحانی قوت پیدا کردیتا ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جزع وفزع میں مبتلا نہیں ہوتا، بلکہ اس ایمان و یقین کے ساتھ اسے برداشت کرتا ہے کہ رب العالمین کی تقدیر میں ایسا ہی ہونا لکھا تھا، اس لئے ہمت و عزیمت کے ساتھ صبر کرتا ہے اور اللہ سےدعا کرتا ہے کہ ارحم الراحمین اسے اس کے سر سے ٹال دے، اور جب اللہ تعالیٰ اسے دولت سے نوازتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتا ہے، کبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتا، آپے سے باہر نہیں ہوجاتا، اور اس مال میں اللہ اور بندوں کا جو حق ہوتا ہے، اسے نہایت خوش دلی سے ادا کرتا ہے، بلکہ اس کی جو مالی حیثیت ہوتی ہے اس اعتبار سے غریبوں، محتاجوں، بے کسوں، یتیموں اور بیواؤں پر ہمیشہ خرچ کرتا رہتا ہے۔ آیات (22) سے (35) تک اللہ تعالیٰ نے جزع فزع اور شدت حرص و طمع سے شفا پانے کے اسی نسخہ کیمیا کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں بیماریوں سے اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے گا۔