وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ
اور جب ان سے کہا جائے آؤ اللہ کا رسول تمھارے لیے بخشش کی دعا کرے تو وہ اپنے سر پھیر لیتے ہیں اور تو انھیں دیکھے گا کہ وہ منہ پھیر لیں گے، اس حال میں کہ وہ تکبر کرنے والے ہیں۔
(5) جہجاہ غفاری اور سنان انصاری کے درمیان ” مریسیع“ کنواں کے پاس جھگڑے کے بعد، عبداللہ بن ابی نے نبی کریم (ﷺ) اور مہاجرین صحابہ کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، اس کی اطلاع جب نبی کریم (ﷺ) کو ہوگئی، تو کچھ لوگوں نے عبداللہ بن ابی کو مشورہ دیا۔ کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس جائے، معافی مانگے اور آپ (ﷺ) سے درخواست کرے کہ آپ اس کے لئے اللہ سے طلب مغفرت کی دعا کریں تو اس نے کبر و غرور کے ساتھ اپنی گردن پھیر کر کہا کہ ” تم لوگوں نے مجھے ایمان لانے کو کہا میں ایمان لے آیا، زکاۃ دینے کو کہا میں نے زکاۃ دی، اب تو محمد کو صرف سجدہ کرنا ہی باقی رہ گیا ہے“ تو ذیل کے کی چاروں آیتیں نازل ہوئیں جن میں منافقین کے اس سردار اور اسی جیسے دیگر منافقوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اورپانچویں آیت میں اس بات کاذکرہےکہ منافقین سےیہ کہاجاتاہے کہ نبی کریم (ﷺ) کے پاس آ کر معذرت پیش کرو، تاکہ وہ تمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، تو وہ تکبر کے ساتھ اپنی گردنوں کو جھٹک کر آپ (ﷺ) کا مذاق اڑاتے ہیں اور آپ (ﷺ) کے پاس جانے سے انکار کردیتے ہیں۔