وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو، حالانکہ یقیناً تم جانتے ہو کہ بے شک میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(5) حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، اس آیت کے ذریعہ نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو کافروں اور منافقوں کی جانب سے جواذیت پہنچتی ہے اس پر صبر کیجیے جیسا کہ موسیٰ نے اپنی قوم کی اذیتوں پر صبر کیا تھا، چنانچہ نبی کریم (ﷺ) نے عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی حدیث میں فرمایا ہے، جسے بخاری نے روایت کی ہے کہ اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر انہیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی تو انہوں نے صبر کیا۔ آگے لکھا ہے : اس آیت کے ذریعہ مؤمنوں کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نبی کریم (ﷺ) کی اذیت کا سبب بنیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت (69) میں فرمایا ہے : ” اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ “ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا لوگو ! تم میری مخالفت کر کے مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو، حالانکہ تمہیں میرے ظاہر و باہر معجزات کے ذریعہ علم یقین حاصل ہوچکا ہے کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ جب انہوں نے زیغ و ضلال پر اصرار کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو راہ حق سے برگشتہ کردیا اور قبول حق کی توفیق چھین لی، اس لئے کہ وہ اہل فسق کو ہدایت کی توفیق سے محروم کردیتا ہے۔