يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ غصے ہوگیا، جو آخرت سے اسی طرح ناامید ہوچکے ہیں جس طرح وہ کافر ناامید ہوچکے ہیں جو قبروں والے ہیں۔
(12) اس سورت کی یہ آخری آیت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے مرکزی مضمون کی مزید تاکید فرمائی ہے اور مومنوں کو تنبیہ کی ہے کہ تمہارا ایمان تم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ تم اہل کفر کو اپنا دوست نہ بناؤ جن سے اللہ ان کے کفر کے سبب غضبناک ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو یہود کے ساتھ خاص کردیا ہے، اس لئے کہ یہاں کہا گیا ہے کہ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوچکا ہے اور یہود ہی وہ لوگ ہیں جن کی قرآن کریم کی دوسری آیتوں میں یہ صفت بتائی گئی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ پہلا قول راجح اور اولیٰ ہے، اس لئے کہ اللہ تمام اہل کفر سے حالت غضب میں ہوتا ہے۔ ان کافر قوموں کی دوسری صفت یہ ہے کہ انہیں آخرت پر ذرہ برابر ایمان نہیں ہے، جیسے ان سے پہلے کافروں کا آخرت پر ایمان نہیں تھا، جبھی تو سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جن سے اللہ غضبناک ہو اور جو آخرت کے منکر ہوں ان سے دوستی کرنی مسلمانوں کے لئے کسی حال میں بھی جائز نہیں، اس لئے کہ وہ بظاہر دوست بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گہری سازش کرتے رہیں گے، اور ان کی حتی الامکان یہی کوشش ہوگی کہ مسلمان بھی انہی کی طرح ملحد و کافر ہوجائیں۔ وبااللہ التوفیق