يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جب تیرے پاس مومن عورتیں آئیں، تجھ سے بیعت کرتی ہوں کہ وہ نہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان لائیں گی جو اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان گھڑ رہی ہوں اور نہ کسی نیک کام میں تیری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لے اور ان کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا کر۔ یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(11) اس آیت کریمہ کو ” بیعۃ النساء“ والی آیت کہتے ہیں اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے وقت اپنے رسول (ﷺ) کو عورتوں سے بیعت لینے کی اجازت دی ہے، چنانچہ آپ (ﷺ) نے صفا پہاڑی پر بیٹھ کر ان عورتوں سے بیعت لی جو آپ (ﷺ) کے پاس جوق در جوق آ کر اسلام میں داخل ہو رہی تھی۔ بخاری، ترمذی اور دیگر محدثین نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مسلمان عورتیں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں، آپ (ﷺ) ان کے ایمان کا امتحان لیتے تھے اور جب آپ (ﷺ) کو ان کے ایمان کی طرف سے اطمینان ہوجاتا تھا، تو ان سے کہتے کہ میں نے تم سے بات کے ذریعہ بیعت لے لی ہے۔ اللہ کی قسم ! آپ کا ہاتھ کسی بیعت کرنے والی عورت کے ہاتھ سے کبھی مس نہیں کیا، آپ (ﷺ) ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے تم سے بیعت لے لی۔ نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے امیمہ بنت رقیقہ سے روایت کی ہے کہ وہ کچھ عورتوں کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس بیعت کے لئے آئیں، تو بیعت کرتے وقت کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ہم سے مصافحہ نہیں کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ہوں۔ (الحدیث) شوکانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اہل مکہ کی عورتیں آپ کے پاس بیعت کے لئے آئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ وہ ان عورتوں سے مندرجہ ذیل امور پر بیعت لیں : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں، چوری نہ کریں، زنانہ کریں، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قتل کی ممانعت، بچہ کے وجود میں آجانے کے بعد، اور ولادت سے قبل جب بچہ رحم مادر میں ہوتا ہے دونوں حالتوں کو شامل ہے۔ انتہی۔ اور اپنے شوہروں کی طرف دوسروں کی اولاد کو منسوب نہ کریں۔ قرآن کریم نے اس افترا پردازی کو اس بہتان کا نام دیا ہے جسے عورت اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے درمیان گھڑتی ہے، اس لئے کہ اس کا پیٹ جس میں بچہ کو ڈھوتی ہے اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ہوتا ہے، اور وہ شرمگاہ جہاں سے بچہ کو جنتی ہے، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہوتی ہے اور آخری بات یہ ہے کہ وہ آپ کے اوامرو نواہی کی نافرمانی نہ کریں ان امور پر ان سے بیعت لیجیے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کیجیے وہ بڑا ہی مغفرت کرنے والا ہے اور بے حد مہربان ہے۔ اس کے بعد شوکانی لکھتے ہیں کہ بیعت میں اسلام کے ارکان خمسہ کا ذکر اس لئے نہیں آیا ہے کہ یہ چیزیں بدرجہ اولیٰ بیعت میں داخل ہیں۔ آیت میں ان گناہوں کا بطور خاص ذکر آیا ہے جن کا ارتکاب بالعموم عورتیں کرتی ہیں۔