لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
وہ اکٹھے ہو کر تم سے نہیں لڑیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں، یا دیواروں کے پیچھے سے، ان کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے۔ تو خیال کرے گا کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔
(10) اس آیت کریمہ میں یہود اور منافقین کی بزدلی اور مسلمانوں سے ان کی مرعوبیت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانو ! ان میں تم سے آمنے سامنے برسر پیکار ہونے کی جرأت نہیں ہے وہ تم پر دیواروں کی آڑ لے کر یا بند قلعوں کے اندر سے ہی حملہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ بڑی قوت و ہمت والے ہیں، تو وہ اس کا مظاہرہ اس میں لڑتے وقت کرتے ہیں، لیکن جب ان کا سابقہ مسلمانوں سے پڑے گا تو ان کی ساری قوت جاتی رہے گی، اس لئے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتا ہے، اللہ اسے بزدل و ذلیل بنا دیتا ہے۔ اے میرے نبی ! ان کا حال تو یہ ہے کہ آپ انہیں بظاہر متفق و متحد دیکھتے ہیں، لیکن ان کے دل ایک دوسرے سے مختلف اور بیگانہ ہیں، اس لئے کہ وہ عقل و خرد سے محروم ہیں، جبھی تو ایمان نہیں لاتے ہیں جو حقیقی محبت و اتحاد اور جمعیت کا ذریعہ ہے۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ مذکور بالا تینوں آیتوں میں مومنوں کو یہود و منافقین سے جنگ پر ابھارا گیا ہے، اور انہیں خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ ان سے جب بھی جہاد کریں گے، اللہ کی تائید سے انہیں ان پر فتح حاصل ہوگی۔