أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے منافقت کی، وہ اپنے ان بھائیوں سے کہتے ہیں جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا، یقیناً اگر تمھیں نکالا گیا تو ضرور بالضرور ہم بھی تمھارے ساتھ نکلیں گے اور تمھارے بارے میں کبھی کسی کی بات نہیں مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ضرور بالضرور ہم تمھاری مدد کریں گے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔
(9) اس آیت کریمہ کا تعلق آیت (2) میں مذکور بنی نضیر کے محاصرہ اور پھر ان کی جلا وطنی سے ہے، جب نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ کرام کے ساتھ ان کی بستی کا محاصرہ کرلیا تو سردار ان منافقین نے ان کو پیغام بھیجا کہ تم لوگ ثابت قدم رہو اور اپنے قلعوں سے نکلو، ہم لوگ تمہیں مسلمانوں کے حوالے نہیں ہونے دیں گے اور اگر جنگ کی نوبت آئے گی تو تمہارے شانہ بہ شانہ جنگ کریں گے اور اگر تمہیں مدینہ سے جانا پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ جائیں گے۔ چنانچہ بنی نضیر منافقین کے اس جھوٹے وعدے کی وجہ سے کچھ دنوں تو ڈٹے رہے، لیکن جب انہوں نے ان کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں دیکھا تو اللہ کا ایسا کرنا ہوا کہ ان پر مسلمانوں کا شدید رعب اور دبدبہ طاری ہوگیا اور فوراً رسول اللہ (ﷺ) کو خبر کی کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ یہاں سے انہیں نکل جانے کی اجازت دے دی جائے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے اونٹوں پر ہتھیار کے علاوہ جتنا سامان لے جا سکیں لے جائیں۔