يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
جس دن تو ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھے گا ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہی ہوگی۔ آج تمھیں ایسے باغوں کی خوشخبری ہے جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہو، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔
(12) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی فضیلت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ قیامت کے دن کس طرح ایمان اہل ایمان کی رہنمائی کرتا ہوا انہیں جنت تک پہنچا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ روز قیامت آپ دیکھئے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے اور دائیں طرف آجائے گا اور انہیں کشاں کشاں جنت تک پہنچا دے گا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) اور قتادہ وغیر ہما نے یہاں ” نور“ سے حقیقی اور حسی نور مرادلیا ہے اور کہا ہے کہ اس دن ہر شخص کا نور اس کے عمل کے مطابق ہوگا، کسی کا پہاڑ کے مانند، کسی کا کھجور کے دخت کے مانند، کسی کا آدمی کے قد کے برابر اور کسی کا اس سے بھی کم، حتی کہ بعض کانور صرف اس کے دونوں قدموں کے درمیان ہوگا۔ اور ضحاک، مقاتل اور ابن جریر وغیرہم کا خیال ہے کہ اس سے مراد مجازی اور معنوی نور ہے، یعنی ایمان اور عمل صالح کا ثواب، جو اہل جنت کے سامنے آ کر ان کی نجات کا سبب بنے گا، اور ان کے دائیں ہاتھ میں ان کا نامہ اعمال ہوگا اور فرشتے ہر جانب سے آ آ کر انہیں ان جنتوں کی خوشخبری دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے، اس سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے اور نہ اس کی نعمتیں کبھی ختم ہوں گی اور ایک مومن کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے۔