وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور تمھیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، جب کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
(10) مفسرین لکھتے ہیں کہ چونکہ اس سورت کا مرکزی مضمون، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دلانا ہے، اسی لئے کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اسالیب میں انفاق فی سبیل اللہ، اس کی اہمیت اور اس کا اجر عظیم بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی زجر و توبیخ کی ہے جو محتاجی کے ڈر سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں، حالانکہ یہ مال اس نے دیا ہے جو آسمان و زمین کے خزانوں کا مالک ہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اور اسی نے سورۃ سبا آیت (39) میں فرمایا ہے : ” تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے“ اس لئے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کترانا، قوت ایمان کے منافی بات ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں جس کی ابتدا سے ہوتی ہے، اللہ نے ان لوگوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے جنہوں نے فتح مکہ یا صلح حدیبیہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا تاکہ حق کی آواز بلند ہو، ان سابقین اولین کے برابر وہ لوگ نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور اس وقت جہاد کیا جب اسلام کو قوت و غلبہ حاصل ہوچکا تھا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (100) میں یوں بیان فرمایا ہے : ” جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔ “ اور بخاری و مسلم نے فضائل الصحابہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے صحابہ کو گالی نہ دو، اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے مانند بھی سونا خرچ کرے گا تو ان کے مد اور آدھے مد کے برابر نہیں ہوگا۔ حافظ سیوطی نے ” الاکلیل“ میں لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ صحابہ کرام کے مختلف مراتب تھے اور ان میں جو لوگ جتنا پہلے اسلام لائے، اسی اعتبار سے ان کو فضیلت حاصل ہے نیز یہ آیت اس کی بھی دلیل ہے کہ لوگوں کو ان کے حسب مراتب مقام ملنا چاہئے۔ اور صحابہ کرام میں اس فرق مراتب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سب کو جنت کا وعدہ کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ متاخرین صحابہ کرام کسی تعریف کے لائق نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی نگاہ میں تمام صحابہ کرام لائق ستائش ہیں۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کا اجر و ثواب، بعد کے صحابہ کرام کے مقابلے میں اس لئے زیادہ رکھا کہ اسے ان کے کامل خلوص نیت، غایت للہیت اور اس بات کا خوب علم تھا کہ انہوں نے کس تنگی اور پریشانی کے زمانے میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا، نسائی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ صحابہ کا ایک درہم دوسروں کے ایک لاکھ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور یہ بات سب اہل ایمان جانتے ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) اس آیت میں مذکور فضیلت کے سب سے زیادہ حقدارتھے، اس لئے کہ انہوں نے محض اللہ کی رضا کے لئے اپنا سارا مال خرچ کردیا تھا۔