سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اللہ کا پاک ہونا بیان کیا ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
(1) آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں سب اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ذات برحق ہر قسم کے ساجھی اور اولاد وغیرہ سے پاک ہے، اور اکیلا ہے اور ہر قسم کی عبادت کا تنہا حقدار ہے۔ ربوبیت، الوہیت، علم، قدرت اور مخلوقات کی تدبیر میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اپنے اپنے حسب حال اپنے رب کی پاکی بیان کرتی ہیں۔ کوئی اپنی زبان سے تسبیح پڑھتا ہے، جیسے فرشتے اور جن و انس اور کسی کی ہئیت و حالت سے آشکار ہوتا ہے کہ اس کا خالق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جیسے آسمان و زمین، درخت، نباتات اور پہاڑ وغیرہ، زجاج کہتے ہیں کہ نباتات و جمادات بھی زبان قال سے ہی تسبیح پڑھتے ہیں، لیکن ہم اسے سمجھ نہیں پاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء آیت (44) میں فرمایا ہے : کہ ” ہر چیز اپنے خالق کی تسبیح بیان کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے ہو“ اور سورۃ الانبیاء آیت (79) میں فرمایا ہے : کہ ” ہم نے داؤد کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا، جو ان کے ساتھ تسبیح پڑھا کرتے تھے“ زجاج کہتے ہیں کہ اگر پہاڑ اپنی زبان قال سے تسبیح نہ پڑھتے، بلکہ مقصود یہ ہوتا کہ ان کی خلقت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کا خالق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، تو اس کے ذکر کرنے میں داؤد (علیہ السلام) کے لئے کوئی خصوصیت نہ ہوتی، اس لئے معلوم ہوا کہ وہ پہاڑ اپنی زبان قال سے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے جسے وہ سمجھتے تھے۔ آیت میں اللہ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بڑا قوی ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز پر غالب ہے اور اس نے تمام موجودات کو اپنی جانی بوجھی حکمت کے مطابق منظم و مرتب کیا ہے، جس سے کوئی بھی چیز سر موا نحراف نہیں کرسکتی ہے۔