سورة النسآء - آیت 17

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

توبہ (جس کا قبول کرنا) اللہ کے ذمے (ہے) صرف ان لوگوں کی ہے جو جہالت سے برائی کرتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ پھر مہربان ہوجاتا ہے اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

24۔ آیات 17، 18 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ بندہ کی توبہ کب قبول ہوتی ہے؟ اور کب رد کردی جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نادانی اور بے وقوفی میں کسی گناہ کا ارتکاب کرلے، اور پھر جلد ہی اس پر نادم ہو اور اللہ کے حضور توبہ کرلے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ ضرور قبول کرتا ہے، لیکن جو آدمی گناہ پر گناہ کرتا رہتا ہے اور اپنے گناہوں پر کبھی نادم نہیں ہوتا، اور جب اس کی آنکھوں کو موت نظر آنے لگتی ہے اور زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے، تو کہتا ہے کہ اے اللہ ! میں توبہ کرتا ہوں، تو ایسی توبہ کی اللہ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون نے اپنی آنکھوں سے موت کو دیکھ لیا اور کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ اور اعلان کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے اسے جواب دیا کہ اب تک تو تم نافرمانی کرتے رہے ہو اور زمین میں فساد پھیلاتے رہے ہو، اور اب جب موت نے آ دبوچا ہے تو ایمان کا اعلان کرتے ہو، اب تمہاری توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ حلق میں آخری سانس اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ حلق میں آخری سانس اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔ ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر توبہ کرنے والا ابھی اپنی زندگی کی امید رکھتا ہے تو اس کی توبہ مقبول ہوگی، لیکن روح جب حلق میں آکر اٹک جائے اور فرشتے کو اپنی آنکھوں کے سامنے پائے اور سانس کا زیر و بم بگڑ جائے، تو اس وقت کی توبہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص حالت کفر و شرک میں مرجاتا ہے، تو ایسے آدمی کی توبہ اور ندامت بھی کسی کام کی نہیں۔ امام احمد اور حاکم نے ابو ذرغفاری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی وقت تک بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یا اسے معاف کردیتا ہے، جب تک حجاب نہ واقع ہوجائے، لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ” حجاب“ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حالت شرک میں ہی جان نکل رہی ہو۔