نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ
ہم نے ہی اسے مسافروں کے لیے ایک نصیحت اور فائدے کی چیز بنایا ہے۔
آیت (73) کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ہرے درخت سے آگ نکال کر لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا ہے کہ ہم نے جہنم کی آگ بھی پیدا کی ہے، جسے یاد کر کے انہیں اس سے نجات کی فکر کرنی چاہئے۔ بخاری و مسلم اور امام احمد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جہنم کی تپش دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ گرم ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر اور اس تفسیر کے تمام قارئین پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے۔ کا مفہوم یہ ہے کہ آگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مختلف الانواع فائدے رکھے ہیں، جو لوگ صحراء میں سفر کرتے ہیں وہ بالخصوص اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ کھانا پکاتے ہیں اور تمام ہی انسان اس سے اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں اگر آگ نہ ہوتی تو آدمی کو کچی چیزیں کھانی پڑتی اور ان صنعتوں اور ایجادات کے دروازے نہیں کھلتے جن میں خام مادوں کو آگ سے ہی پگھلا کر مشینیں، اسلحے محیر العقول آلات بنائے جاتے ہیں۔