وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
اور تھوڑے سے پچھلوں سے ہوں گے۔
اور ان سے کم تعداد امت محمدیہ سے ہوگی۔ یعنی مقرب بندوں کی تعداد امت محمدیہ میں سے بھی بڑی ہوگی، لیکن گزشتہ امتوں کے مقابلے میں ان کی تعداد کم ہوگی، اس لئے کہ آدم سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے انبیاء آئے اور انہیں بہت بڑی تعداد نے دیکھا ان کی صحبت اختیار کی اور عمل صالح کے ذریعہ اللہ کے مقرب بندے ہوگئے۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ یہ قول صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی حدیث کے مخالف نہیں ہے جس میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے : مجھے قوی امید ہے کہ تمہاری تعداد اہل جنت کی ایک چوتھائی ہوگی پھر فرمایا : ایک تہائی پھر فرمایا : تمہاری تعداد اہل جنت کی آدھی ہوگی“ اس لئے کہ آیت میں اللہ کے مقرب ترین بندوں کا ذکر آیا ہے اور حدیث میں عام اہل جنت کا ذکر ہے، جنہیں قرآن میں سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی امت محمدیہ کے اصحاب الیمین اور اللہ کے مقرب بندوں کی مجموعی تعداد اہل جنت کی آدھی تعداد ہوگی۔