وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے، یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں (یعنی لونڈیاں)۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔
3۔ یہاں، یتامی سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں، آیت کا معنی یہ ہے کہ اے یتیم بچیوں کے اولیاء اگر تمہیں ڈر ہو کہ ان یتیم بچیوں کے ساتھ نکاح کر کے ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہ کرسکوگے، یا تو مہر کم کردوگے یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کروگے تو ان کے علاوہ دوسری غیر رشتہ دار لڑکیوں سے شادی کرلو، دنیا میں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے، اور پھر ایک نہیں چار بیویاں بیک وقت رکھ سکتے ہو۔ امام بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کی ولایت میں ایک یتیم لڑکی تھی، جس کے پاس کھجور کا ایک باغ تھا، اس باغ کی لالچ میں اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے شادی کرلی، نہ اس کے پاس جاتا تھا اور نہ اسے چھوڑتا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عائشہ (رض) کی ہی ایک دوسری روایت ہے جسے بخاری، مسلم ابو داود اور نسائی نے روایت کی ہے کہ آیت میں مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے پاس پلتی ہے، اور اس کے مال میں شریک ہوتی ہے، اور خوبصورت بھی ہوتی ہے۔ اس کا ولی اس سے شادی کرلینا چاہتے ہیں لیکن مہر مثل نہیں دیتا۔ ایسے آدمی کو حکم دیا گیا ہے کہ یا تو مناسب مہر دے کر شادی کرے یا پھر دوسری لڑکیوں سے شادی کرے۔ ایک تیسری روایت حضرت عائشہ (رض) ہی سے بخاری نے روایت کی ہے کہ آیت میں مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے پاس پلتی ہے اور اس کے مال میں شریک ہوتی ہے، لیکن اس کا ولی اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا، اور نہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی شادی کسی اور سے کردے، اس ڈر سے کہ اس کا شوہر مال میں اس کے ساتھ شریک ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے فعل سے منع فرمایا ہے۔ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے شادی کرلیں، اور انہیں چار بیویوں تک سے شادی کرنے کا اختیار دیا ہے، اور چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سنت اسی پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے علاوہ کسی کے لیے چار سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز نہیں، اسی پر امت کا اجماع ہے، صرف بعض شیعوں نے چار سے زیادہ کو جائز کہا ہے۔ علمائے امت نے چار سے زیادہ کی حرمت پر غیلان ثقفی کے واقعہ سے استدلال کیا ہے جن کے پاس دس بیویاں تھیں۔ جب اسلام لائے تو اللہ کے رسول نے ان سے کہا کہ چار کے علاوہ باقی کو طلاق دے دو۔ اس حدیث کو ابن عمر (رض) سے احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے، اور علامہ البانی سے اس کی تصحیح کی ہے۔ دوسرا واقعہ نوفل بن معاویہ کا ہے جن کے پاس اسلام لانے کے وقت پانچ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان سے کہا چار کو رکھ لو اور ایک کو چھوڑ دو، اسے امام شافعی نے اپنی مسند میں روایت کی ہے۔ تیسرا واقعہ قیس بن حارث اسدی کا ہے جن کے پاس آٹھ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان سے کہا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو، اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور علامہ البانی اس کی تصحیح کی ہے۔ چوتھا واقعہ عمیر اسدی کا ہے جن کے پاس بھی آٹھ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان سے کہا کہ ان میں سے چار کو چن لو، اسے ابو داود اور ابن اجہ نے روایت کی ہے، اور علامہ البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اس کی تصحیح کی ہے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ امت کا اجماع اسی پر ہے کہ چار سے زیادہ بیویاں رکھنا امت کے کسی فرد کے لیے جائز نہیں یہ چیز رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ خاص تھی۔ البتہ قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں چار بیویاں رکھنے کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن کریم نے تو اس کی حلت کی صراحت کردی، بلکہ امر کا صیغہ استعمال کیا ہے، جو بظاہر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن صیغہ امر کے بعد اللہ تعالیٰ نے ماطاب کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنا حلال ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا، اور آج تک ہر دور میں مسلمان اس کے قائل رہے ہیں، اور اس کے مطابق عمل کرتے رہے ہیں۔ اور یہ جو قرآن نے کہا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ ان کے درمیان تم عدل و انصاف سے کام نہ لے سکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو، تو یہ ایسی شرط ہے جس کا تعلق ہر آدمی کے دل سے ہے، اگر شادی کرنے والا جانتا ہے کہ وہ انصاف نہیں کرسکے گا تو بہتر یہی ہے کہ ایک بیوی رکھے، اس کا تعلق تشریع اور قانون سازی سے نہیں ہے۔ تعدد ازواج کے بعض منکرین نے قرآن کی آیت سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ نے خود نفی کردی ہے کہ کوئی آدمی عدل و انصاف نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن انہوں نے اسی آیت کا اس کے بعد کا حصہ قصداً چھوڑ دیا، اللہ نے کہا کہ تم پورے طور پر تو انصاف نہیں کرسکتے، لیکن کسی ایک طرف بالکل نہ جھک جاؤ، معلوم ہوا کہ اگر کسی ایک کی طرف پوری طرح جھکاؤ نہ ہو تو جائز ہوگا۔ 4۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے بے انصافی سے ڈرے تو ایک ہی بیوی رکھے، یا پھر لونڈی سے ہی گذارا کرے، جس میں نہ عدد کی شرط ہے، اور نہ ان کے درمیان بالکل ٹھیک ٹھیک عدل و انصاف کی۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ ایک پر اکتفا کرنا، یا لونڈیوں سے کام چلا لینا، اس اعتبار سے زیادہ مناسب ہے کہ تم سے بے انصافی کا ارتکاب نہ ہوگا۔ بعض دوسرے مفسرین نے کا معنی یہ کیا ہے تاکہ تمہاری اولاد زیادہ نہ ہو، اور پھر ان کے اخراجات مہیا کرنے کے لیے یتیموں کے مال پر دست درازی کرتے پھرو، زید بن اسلم، سفیان بن عیینہ اور امام شافعی سے یہی تفسیر منقول ہے، عائشہ، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور حسن وغیرہم سے پہلی تفسیر منقول ہے، اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دیا ہے۔ بہرحال، پہلی اور دوسری دونوں ہی تفسیروں کے مطابق آیت سے اتنی بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں ڈرتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا بہتر ہے، لیکن اس آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک سے زیادہ بیوی صرف ناگزیر حالت میں ہی رکھنا چاہئے، اور بغیر ناگزیر حالت کے ایسا کرنا نا مناسب اور خطرناک ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ یہ ایسی تفسیر ہے جس کی یہ آیت متحمل نہیں ہے۔ اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صحابہ کرام کے کسی قول و فعل سے یہ بات مترشح نہیں ہوتی کہ صرف ناگزیر ضرورت کے پیش نظر ہی دوسری بیوی رکھنی جائز ہے۔ قرآن کریم، احادیثِ نبویہ اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صحابہ کرام کی حیاتِ طیبہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زیادہ بیوی رکھنا جائز ہے، اور اس میں کسی طرح کی کوئی دینی یا اخلاقی قباحت نہیں پائی جاتی ہے۔