يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔
(1)۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں تمام بنی نوع انسان کو چاہے وہ مؤمن ہوں یا کافر، یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور دنیا میں رحم کے ذریعہ جو رشتہ داریاں قائم ہیں، ان کا خیال رکھیں، اور ان اسباب کو بیان کیا ہے، جو دونوں کے وجوب و لزوم کا تقاضا کرتے ہیں۔ اللہ سے اس لیے ڈرتے رہنا ہے کہ وہی انسان کا رب ہے، اسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اسے روزی دیتا ہے، اور اس پر اس کے بے شمار احسانات ہیں، اسی نے انسان کو آدم سے پیدا کیا، اور آدم ہی کی بائیں پسلی سے اس کی بیوی حوا کو پیدا کیا تاکہ انسان کی بیوی اس کے مناسب حال ہو، اس کی قربت سے اسے سکون و راحت ملے، اور اللہ کی نعمت اس پر تمام ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہیں سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا، تاکہ ان سے تم سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ (الروم :21) اللہ سے اس لیے بھی ڈرتے رہنا ہے کہ آدمی اللہ کا نام لے کر ہی اپنی کوئی حاجت کسی کے سامنے رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ مسئول کے دل میں اللہ کی کبریائی اور عظمت کا جو تصور ہے، اس کے پیش نظر اس کی مانگ ضرور پوری کرے گا، اللہ کی اس عظمت و کبریائی کا تقاضا ہے کہ آدمی اس کی عبادت کرے اور اس سے ڈرتا رہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت کو آدمی کے دل میں بٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ رحم کے حق کو جوڑ دیا، تاکہ معلوم ہو کہ جس طرح اللہ کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے، اسی طرح رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا بھی واجب ہے، اور جو شخص رشتہ میں جتنا قریب ہوگا، اتنا ہی اس کے حق کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کی اہمیت بتانے کے لیے بندوں کو اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا، اللہ نے فرمایا : (الاسراء :23)۔ دوسری جگہ فرمایا: ۔ (النساء : 36)۔ صحیحین میں عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، رحم کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہارے احوال و اعمال سے واقف ہے، اس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے، اس لیے آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی اس طرح گذارے کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات ثبت ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور میرے تمام اعمال اس کی نگاہ میں ہیں۔