فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تو (اے جن و انس!) تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟
(7) مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے جن وانس کے لئے اپنی گوناگوں نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد، اس آیت کریمہ میں انہیں مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے یہ ان گنت نعمتیں تم سے تقاضا کرتی ہیں کہ اس کے احسانات کا دل سے اعتراف کرو اور زبان و عمل سے اس کا شکر ادا کرتے رہو۔ امام شوکانی نے قتیمی کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی نعمتوں کا ذکر کر کے جن و انس کو ان کی یاد دلائی ہے، اور ہر دو نعمت کے ذکر کے درمیان آیت یعنی ” اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے“ کے ذریعہ بار بار اپنی نعمتوں کو یاد دلا کر ان کی تنبیہ کرنی چاہی ہے، ویسے ہی جیسے ایک آدمی کسی شخص پر مسلسل احسان کرتا رہتا ہے اور وہ شخص مسلسل احسان فراموشی کرتا رہتا ہے تو وہ آدمی اس سے کہتا ہے کہ کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ تم محتاج و فقیر تھے تو میں نے تمہیں پیسے دے دے کر مالدار بنا دیا تھا، کیا تم اس کا انکار کرسکتے ہو؟ کیا تمہیں یاد ہے کہ تمہارےپاس سواری نہیں تھی تو میں نے تمہیں سواری دی تھی، کیا تم اس کا انکار کرسکتے ہو؟ حسین بن فضیل کا قول ہے کہ اس آیت کے تکرار سے مقصود بندوں کو تنبیہ کرنی اور ان کی غفلت دور کرنی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں اور ہر حال میں اس کے شکر گذار رہیں۔ امام بغوی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اکتیس بار دہرائی گئی ہے اور اس تکرار سے مقصود بندوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانی ہے کہ یہ نعمتیں اللہ نے دی ہیں اور وہ ان کے مقابلے میں ان کی جانب سے ذکر و شکر کا مستحق ہے۔